پاکستان میں جہاں صحت عامہ کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے وہیں طب کی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کا معیار بھی تشویش کا باعث ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے صحت عامہ کی مجموعی صورت حال سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملک میں لگ بھگ 118 میڈیکل کالجز ہیں جن میں سے بمشکل 10 ادارے معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔
کراچی پریس کلب میں اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر پی ایم اے کے عہدے داروں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں 80 فیصد تعداد خواتین کی ہوتی ہے، جن میں سے بیشتر تعلیم مکمل ہونے کے فوری بعد اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائگی شروع نہیں کرتیں۔
تنظیم کا ماننا ہے کہ یہ ملک میں ڈاکٹروں کی قلت کا ایک اہم سبب ہے اور صحت عامہ سے متعلق کئی مسائل کی وجہ بھی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لوگوں کو طبی سہولتوں تک عدم رسائی اور ڈاکٹرز کی کمی کی وجہ سے 80 فیصد زچگیاں گھروں پر غیر تربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھوں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں نوزائیدہ بچے اور مائیں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں ہر 1,200 کے قریب افراد کے لیے ایک ڈاکٹر، لگ بھگ 1,700 افراد کے لیے ایک ڈینٹسٹ اور 1,700 مریضوں کے لیے اسپتال کا ایک بستر ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ملک میں طبی سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ صحت کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے جو اس وقت مجموعی قومی پیداوار کا محض 0.23 فیصد ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں صحت عامہ کی صورت حال کو بہتر بنانے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں اور اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صحت کے شعبے کی وفاق سے صوبوں کو منتقلی اسی عمل کی ایک کڑی ہے۔
اس کے علاوہ حکومت نے حال ہی میں دوا سازی کی صنعت کی نگرانی کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے سلسلے میں آرڈینینس بھی جاری کیا ہے۔