کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان کی برآمدات پر بھی منفی اثر ہوا ہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق اپریل 2019 کے مقابلے میں رواں سال اپریل میں پاکستانی برآمدات میں 54 فی صد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آئندہ چند ماہ کے دوران پاکستانی برآمدات میں منفی رجحان جاری رہا تو رواں مالی سال کے لیے مقرر کردہ 26 ارب ڈالر کا ہدف حاصل کرنا بہت مشکل ہو گا۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کی طرف سے منگل کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی برآمدات گزشتہ ماہ 95 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھی جب کہ اپریل 2019 میں پاکستانی بٖرآمدات کا حجم ایک ارب 80 کروڑ ڈالر تھا۔
دوسری جانب ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان کی درآمدات میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران پاکستان کی درآمدات میں 16 فی صد سے زائد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
جولائی 2018 سے اپریل 2019 تک پاکستان کی درآمدات کا حجم تقریباً 45 ارب ڈالر تھا۔ جو رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں کم ہو کر 38 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک پاکستان کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔
کرونا کے باعث معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث پاکستان ان ممالک میں ماضی کی طرح اشیا ایکسپورٹ نہیں کر رہا۔
ماہرین کے بقول وبا کے اثرات کم ہوئے تو پاکستان کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گا۔ لیکن اگر یہ صورتِ حال طویل عرصے تک برقرار رہی تو برآمدات کا حجم مزید کم ہو سکتا ہے۔ جس سے پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی بڑھ سکتا ہے۔
پاکستان میں تجارت سے متعلق غیر سرکاری ادارے 'پاکستان بزنس کونسل' کے سربراہ احسان ملک اس صورتِ حال کو حیران کن قرار نہیں دیتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احسان ملک کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر پاکستان کی برآمدات میں کمی ہوئی ہے۔ اُن کے بقول پاکستان امریکہ اور یورپی ممالک کو ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ جن کا مجموعی حجم کل برآمدات کا 60 فی صد ہے۔
لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں رکی ہوئی ہیں۔ لہذٰا برآمدات میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔
احسان ملک کے بقول "امریکہ اور یورپی یونین کے کئی ملکوں سے پاکستان کو ملنے والے آرڈرز اس وبا کی وجہ سے کینسل کر دیے گئے ہیں۔ بعض خریدار ممالک نے ٹیکسٹائل مصنوعات پر مزید رعایت کا تقاضا کیا۔ اس وجہ سے برآمدات کم ہو رہی ہیں۔"
ان کے بقول پاکستان کی برآمدات میں ٹیکسٹائل کا حصہ تقریبا 60 فی صد ہے جب کہ پاکستان چاول، سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان اور قالینوں کے علاوہ دیگر اشیا بھی برآمد کرتا ہے۔
احسان ملک کہتے ہیں کہ پاکستان لگ بھگ 13 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات سالانہ مختلف ملکوں کو برآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سالانہ دو ارب 50 کروڑ ڈالرز کے چاول برآمد کیے جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات تو کم ہوئی ہیں۔ لیکن چاول اور دیگر اشیائے خورو نوش کی برآمدات میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
احسان ملک کہتے ہیں کہ بحری تجارتی راستوں کی بندش سے بھی برآمدات کم ہوئی ہیں۔ البتہ پاکستان کو صحت سے متعلقہ سامان کے نئے آرڈرز بھی موصول ہو رہے ہیں۔ جن میں سرجیکل گاؤن اور ماسکس کے علاوہ دیگر اشیا شامل ہیں۔
یادر ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات اور بیرونی ممالک سے ترسیلات زر میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لہذٰا ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب 40 کروڑ ڈالر قرض دیا ہے۔
ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی اس ضمن میں پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حفاظتی اقدامات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے صنعتی شعبے کو کھولنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ تاکہ پاکستان یہ مصنوعات زیادہ مقدار میں ایکسپورٹ کر سکے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی جولائی 2019 سے اپریل 2020 تک پاکستان کی برآمدات کا حجم 18 ارب 40 کروڑ ڈالر ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جون تک برآمدات میں مزید چار ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جس کے بعد مجموعی برآمدات 21 ارب ڈالر ہو سکتی ہیں۔
لیکن ماہرین اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ اگر صورتِ حال ایسی ہی رہی تو آئندہ سال پاکستان کی برآمدات میں 15 فی صد کمی ہو سکتی ہے۔