فیفا ورلڈ کپ کی سیکیورٹی: قطر نے پاکستان کی ہی فورسز کا انتخاب کیوں کیا؟

پاکستان کی جانب سے فیفا ورلڈ کپ کے لیے افواج کی فراہمی کے فیصلے کو غیر معمولی فیصلے کے طور پر لیا جا رہا ہے۔

قطر میں رواں برس نومبر اور دسمبر میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کی سیکیورٹی کے لیے پاکستان کی فورسز کی خدمات طلب کرنے کو ماہرین افواجِ پاکستان پر بھرپور اعتماد کا اظہار قرار دے رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف دو روزہ دورے پر قطر میں موجود ہیں اور ان کی کابینہ نے پیر کو ہی فیفا ورلڈکپ 2022 کی سیکیورٹی کے لیے پاکستان کی فوج کی خدمات پیش کرنے کی منظوری دی ہے۔

پاکستان کی جانب سے فیفا ورلڈ کپ کے لیے افواج کی فراہمی کے فیصلے کو غیر معمولی فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اس کو خطے کے حالات کے تناظر میں فوجی اہمیت کی نگاہ سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ قطر کا پاکستان کی فوج کا انتخاب اس کی عسکری مہارت کے ساتھ ساتھ دوحہ کے اسلام آباد کے ساتھ برادرانہ تعلقات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کہتے ہیں کہ یہ بڑا اعزاز ہے کہ قطر نے عالمی مقابلے کی سیکیورٹی کے لیے پاکستان کی فوج پر اعتماد کا اظہار کیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی قیادت کی کوشش ہوگی کہ قطر نے جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اس پر پورا اترا جائے۔

SEE ALSO: شہباز شریف کا دورۂ قطر، فٹ بال ورلڈکپ کے لیے پاکستانی فوج کی خدمات پر مشاورت کا امکان

قطر میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے سابق سفارت کار سید حسن رضا کہتے ہیں کہ قطر کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی بہترین تعلقات ہیں تاہم دوحہ کا پاکستان سے سیکیورٹی کی درخواست کا فیصلہ پیشہ وارانہ بنیادوں پر کیا گیا ہے۔

ان کے بقول قطر کی فوج کی تعداد محدود ہے جو فٹ بال کے عالمی مقابلے جیسی سرگرمی کے حفاظتی انتظامات کے لیے کافی نہیں۔ اسی وجہ سے اس نے افواجِ پاکستان کی خدمات کی درخواست کی ہے۔

واضح رہے کہ روراں سال کے آغاز میں مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد (نیٹو) نے تصدیق کی تھی کہ وہ قطر میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کے لیے سیکیورٹی میں مدد فراہم کرے گا۔ جولائی میں ترکی کے وزیرِ داخلہ نے بھی کہا تھا کہ ان کا ملک ورلڈ کپ کے لیے 3250 سیکیورٹی اہلکار قطر بھیجے گا۔

جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کے خیال میں پاکستان اور قطر کے جس طرح کے دوستانہ تعلقات اور ثقافتی میل جول ہے اس کے باعث دوحہ کی قیادت نے مناسب سمجھا ہوگا کہ پاکستان کی فوج ہی بہترین انتخاب ہے۔اتنی بڑی تعدا میں تربیت یافتہ اہلکاروں کی فراہمی کسی اور ملک کے لیے آسان نہیں۔ اگر کوئی دوسرا ملک یہ ذمہ داری لیتا تو اس کی بہت سی شرائط ہوتیں۔

انہوں نے کہا کہ قطر کے ترکی اور بھارت سے بھی تعلقات ہیں تاہم اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوحہ نے پاکستان کو اہمیت اور ترجیح دی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوگی کہ پاکستان کے علاوہ کوئی اور ملک اتنی ہم آہنگی سے یہ خدمات یا کارکردگی نہیں دکھا سکے گا۔

طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ پاکستان کی افواج اس قسم کے عالمی نہ سہی لیکن بڑے مقابلوں کے دوران سیکیورٹی فراہم کرنے کا تجربہ رکھتی ہے اور ملک میں اس قسم کے جو مقابلے ہوتے ہیں اس میں فوج اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ پاکستان کی فوج کی قیادت مسلم ممالک سے ایوارڈ حاصل کر رہی ہے، اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس قدر اچھی ساکھ رکھتے ہیں۔

پاکستان کی وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی گئی سمری کے مطابق قطر کو فیفا ورلڈکپ کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنے کی منظوری کے موقع پر فوج نے اس حوالے سے معاہدے کی تجویز دی تھی۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی دوحہ میں قطری قیادت سے ملاقات کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔

SEE ALSO: قطر فٹبال ورلڈکپ سے قبل اجرت میں تاخیر پر مظاہرہ کرنے والے مزدور گرفتار

تاہم اب تک اس طرح کی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی کہ پاکستان کی فوج عالمی مقابلے کے دوران کس طرح کی ذمہ داریاں نبھائے گی۔ البتہ بعض رپورٹس کے مطابق معاہدے کے بعد سیکیورٹی اور حفاظتی آپریشنز کے لیے پاکستان سے بھیجے جانے والی فوجیوں کی تعداد، مخصوص مہارت اور دونوں اطراف کی ذمہ داریوں کا تعین ہوسکے گا۔

جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کہتے ہیں کہ قطر کی درخواست پر پاکستان فوج کو دوحہ بھیجنے کے فیصلے کی اسٹرٹیجک اہمیت بھی ہے۔ ان کے بقول ایک تو یہ کہ مسلمان ممالک کو جب بھی ضرورت پیش آتی ہے تو پاکستان کی افواج مدد کی فراہمی میں پیش پیش رہتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی افواج کے دستے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افواج کی پیشہ وارانہ مہارت کے سبب ہی امریکہ، چین یا روس کے مقابلے میں پاکستان کو اہمیت دی جاتی رہی ہے۔

SEE ALSO: فیفا ورلڈ کپ 2022: کون سی ٹیم کس کے مد مقابل ہو گی؟

سفارت کار سید حسن رضا کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی خدمات کی انجام دہی اسلام آباد کو فائدہ دے گی کیوں کہ جب آپ کسی ملک کی مدد کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ اسے یاد رکھتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ قطر نے کسی اور ملک سے بھی اس سلسلے میں رجوع کیا، تاہم اسلام آباد کی طرف سے یہ رضاکارانہ اقدام نہیں ہے، بلکہ قطر کی خواہش پر پاکستان نے حامی بھری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے قطر کے ساتھ پرانے دفاعی تعلقات ہیں۔ ماضی میں افواجِ پاکستان قطر کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کرتی رہی ہے ۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کی خاص اہمیت نہیں ہے کیوں کہ یہ صرف اس عالمی مقابلے تک محدود ہے اور ورلڈ کپ کے اختتام پر عسکری دستے واپس آ جائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے پاکستان پر منفی اثرات بھی نہیں ہوں گے کیوں کہ پاکستان اور قطر اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ہیں اور دونوں ملکوں کی باہمی شراکت داری بہت پرانی ہے۔