|
ویب ڈیسک —پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ افغانستان میں 20 سے زائد دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جو کابل، خطے اور دنیا کی سلامتی اور استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے افغانستان کے حوالے سے پیر کو ہونے والے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ کابل حکام داعش کے خلاف تو کارروائیاں کر رہے ہیں۔ لیکن القاعدہ سے منسلک رہنے والی ٹی ٹی پی، بلوچ عسکریت پسندوں جیسے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ سمیت دیگر کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
منیر اکرم نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے افغانستان میں چھ ہزار جنگجو ہیں اور یہ افغان سرزمین استعمال کرنے والی سب سے بڑی کالعدم دہشت گرد تنظیم بھی ہے۔
ان کے بقول ٹی ٹی پی نے پاکستان کی فوج، شہریوں اور املاک پر کئی حملے کیے ہیں جن میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود دیگر دہشت گرد گروہوں جیسے کہ بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کے ساتھ تعاون کر رہی ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان مسلسل یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی افغان سرزمین استعمال کر رہی ہے۔ دوسری جانب کابل میں برسِ اقتدار طالبان پاکستان میں دہشت گردی اور ٹی ٹی پی کے معاملے کو اندرونی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ برس اگست میں افغان طالبان کی عبوری حکومت کے چیف آف آرمی اسٹاف نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی افغانستان میں موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
کابل میں نیوز کانفرنس کے دوران طالبان آرمی چیف فصیح الدین فطرت نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے پاکستان میں ہی ٹھکانے ہیں اور کچھ علاقوں پر اس کا کنٹرول بھی ہے جہاں سے وہ پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی افغانستان میں موجودگی ثابت نہیں کی جا سکتی۔
منیر اکرم نے کسی ملک کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے بڑے دشمن سے بھی بیرونی حمایت اور مالی اعانت حاصل کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کی حکومت کو داعش کے چیلنج کا سامنا ہے۔ ان کی داعش کے خلاف کارروائیاں زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔ داعش نے افغانستان میں متعدد حملوں کا دعویٰ کیا ہے جب کہ اس نے خطے کے دیگر ممالک جن میں ایران کے شہر کرمان، روس کے دارالحکومت ماسکو کے ساتھ ساتھ حال ہی میں پاکستان کے شہر پشاور میں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
SEE ALSO: گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں پاکستان دوسرے نمبر پر؛ دہشت گردی میں 45 فی صد اضافہواضح رہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ماہ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان کے کنٹرول میں افغانستان میں ایسے علاقے موجود ہیں جو انتہاپسند گروپوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
سیکیورٹی کونسل میں خطاب میں منیر اکرم نے مزید کہا کہ پاکستان نے داعش کے کئی اہم ارکان کو گرفتار کیا ہے جو متعدد حملوں میں ملوث تھے۔ ان میں محمد شریف اللہ نامی ایک افغان شہری بھی شامل ہے جو 2021 میں أفغانستان سے امریکہ کے انخلا کے وقت کابل ایئر پورٹ کے ایبی گیٹ پر ہونے والے حملے میں ملوث تھا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران افغانستان سے انخلا کے وقت ہونے والے دھماکے کے مبینہ ملزم کی گرفتاری میں مدد پر پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایبی گیٹ پر حملے کے 'دہشت گرد' کو امریکہ لایا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ نےگزشتہ بتایا تھا کہ داعش خراسان کے ایک کارکن اور منصوبہ ساز کو گرفتار کیا ہے جو 13 امریکی فوجیوں اور 160 سے زیادہ افغان شہریوں کی ہلاکت کا ذمے دار ہے۔
SEE ALSO: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکہ کا مفاد مشترک ہے: امریکی محکمۂ خارجہسیکیورٹی کونسل میں خطاب میں منیر اکرم نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی تیزی سے علاقائی دہشت گرد گروہوں کے لیے معاون تنظیم کے طور پر ابھر رہی ہے اور ان کے لیے ایک چھتری کا کام کر رہی ہےجن کا مقصد خطے کے ممالک کے استحکام کو متاثر کرنا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ٹی ٹی پی کی طویل عرصے سے القاعدہ سے وابستگی رہی ہے جس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹی ٹی پی نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی دہشت گردی کا خطرہ بن سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے سرحد پار سے ہونے والی کارروائیوں میں غیر ملکی افواج کے أفغانستان میں چھوڑے گئے ہتھیار ضبط کیے ہیں۔ افغان عبوری حکومت پر ان ہتھیاروں کو دہشت گرد گروہوں سے واپس لینے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
ان کے بقول افغانستان پاکستان کے ساتھ مسائل حل کر لے تو اس کی تجارت میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان مسائل میں سرحد پار دہشت گردی کو ختم، پاکستان کی سرزمین پر سرحدی چوکیوں کی تعمیر بند کرنا اور پاکستان میں اسمگلنگ روکنا شامل ہیں۔
حالیہ عرصے میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی تنازعات میں اضافہ ہوا ہے اور اسلام آباد کی جانب سے افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے مطالبے میں شدت پیدا ہوئی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کے دوران دونوں ممالک کی اہم سرحدی گزرگاہ طورخم بھی گزشتہ ماہ سے بند ہے۔
یہ گزرگاہ اس وقت بند ہوئی جب طالبان کی سرحدہ چوکی بنا رہے تھے اور اس پر تنازع ہوا۔ سرحدی گزر گاہ کھولنے کےلیے علاقے کے مشران کا جرگہ بھی ہو چکا ہے لیکن تاحال یہ معاملہ حل نہیں ہوا۔
SEE ALSO: طورخم سرحدی گزرگاہ پر کشیدگی برقرار; افغان طالبان کا ایک سیکیورٹی اہلکار ہلاکمنیر اکرم نے خطاب میں پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین کی پاکستان اور ایران سے جلد از جلد واپسی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ مہاجرین کی غیر معینہ مدت تک میزبانی نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ان مہاجرین میں سے کچھ پاکستان میں دہشت گردی سمیت دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔
انہوں نے امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افراد کے انخلا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگست 2021 میں غیر ملکی افواج نے جلد بازی میں انخلا کیا۔ اس دوران بھی پاکستان نے نیٹو افواج اور غیر ملکی شہریوں کے انخلا میں معاونت کی۔ گزشتہ حکومت سے وابستہ افغانوں شہریوں کی عارضی طور پر پاکستان میں قیام کو قبول کیا جب کہ طالبان سے خوف زدہ لگ بھگ سات لاکھ افغان شہریوں کو پاکستان میں پناہ دی۔
اسلام آباد میں قائم افغان سفارت خانے ایک بیان میں الزام عائد کر چکا ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت میں مقیم افغان باشندوں کو پولیس گرفتار اور ہراساں کر رہی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے اس پر ردِعمل میں کہا تھا کہ پاکستان غیر قانونی طور پر مقیم افغان تارکینِ وطن کی واپسی کے عمل میں کسی کے ساتھ بھی بدسلوکی نہیں کر رہا۔
SEE ALSO: افغان سٹیزن شپ کارڈ رکھنے والوں کو بھی 31 مارچ تک پاکستان چھوڑنے کی ہدایت؛ معاملہ ہے کیا؟خواتین کے حوالے سے طالبان حکومت کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے منیر اکرم نے کہا کہ کابل حکومت اپنی یقین دہانیوں کو پورا کرنے کے بجائے خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں دگنا کر چکی ہے۔ یہ بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہیں جب کہ اسلامی قوانین اور تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔
افغانستان کی صورتِ حال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں: بھارت
بھارت کے اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب پروتھانینی ہریش نے سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں خطاب میں کہا کہ بھارت افغانستان کی صورتِ حال کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نئی دہلی افغانستان میں قیامِ امن اور استحکام کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی طور پر ہونے والی کوشش میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے بھارت اور افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے درمیان ہونے والے حالیہ رابطوں کا بھی ذکر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے طالبان حکومت سے کئی متعدد دو طرفہ معاملات پر بات چیت کی ہے۔
جنوری میں بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرام مسری اور افغان طالبان کی عبوری حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے درمیان دبئی میں ملاقات ہوئی تھی۔
اس ملاقات کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ نےایک بیان میں بھارت کو 'خطے کا اہم ملک اور معاشی شراکت دار' قراردیا تھا۔
SEE ALSO: بھارت نے افغانستان سمیت ہمسایہ ملکوں کی امداد میں اضافہ کیوں کیا؟بھارت اور افغانستان کے تعلقات اور پاکستان پر اثرات کے بارے میں اسلام آباد کے تھنک ٹینک ’ صنوبر انسٹیٹیوٹُ کے ایگزیگٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر قمر چیمہ نے کہا کہ بھارت نے افغانستان میں کرزئی کے دورِ حکومت میں دو سے تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اور طالبان کے برسرِ اقتدار میں آنے کے بعد نئی دہلی نے کابل سے رابطہ کیا تو طالبان کی عبوری حکومت کی طرف سے ان کی اس سرمایہ کاری کی مکمل حفاظت کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر قمر چیمہ نے مزید کہا کہ طالبان حکومت میں بھارت کو افغانستان میں انسانی امداد جاری رکھنے کی اجازت دی گئی اور بھارت کو یقین دہانی کرائی گئی کہ افغان سرزمین بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ یہ نئی دہلی کے تحفظات تھے جن کو طالبان حکومت نے دور کیا۔
ڈاکٹر قمر چیمہ نے کہا کہ بھارت افغان حکومت کو اس وقت آپشن دے رہا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف نہ دیکھے اور بھارت کے ساتھ مختلف مواقع کا جائزہ لے۔ بھارت چاہتا ہے کہ افغان طالبان کا رخ پاکستان کے بجائے ایران کی طرف ہو جائے۔
ان کے بقول افغان حکومت اس وقت بھارت کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کررہی ہے اور یقین دہانی کروا رہی ہیں کہ افغانستان سے کوئی بھی قدم بھارت کے خلاف نہیں اٹھایا جائے گا جب کہ ایسی کوئی یقین دہانی پاکستان کو نہیں کرائی جارہی۔
SEE ALSO: بھارت خطے کا اہم ملک اور پارٹنر ہے: افغان طالبانان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے تحفظات سے افغان حکومت کو آگاہ کر رہا کہ ان کے متعدد علاقوں میں ٹی ٹی پی کے خفیہ ٹھکانے ہیں۔ لیکن افغان حکومت نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ان محفوظ ٹھکانوں سے عسکریت پسند پاکستان میں داخل ہوکر تواتر سے دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
قمرچیمہ نے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں بہت سست پوزیشن لی اور افغانستان سے آنے والی مختلف دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کو اس طرح سے آگاہ نہیں کیا جیسا کیا جانا ضروری تھا۔ کچھ عرصہ قبل جب پاکستان نے افغان علاقوں میں موجود ان مبینہ دہشتگردوں کو نشانہ بنایا تو افغان حکومت نے ان مرنے والے افراد کو افغان شہری کہا تھا اور بھارت نے اس پر بیان جاری کیا تھا کہ پاکستان کو افغان شہریوں کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ان کے مطابق ان بیانات سے افغانستان اور بھارت کی حکومت کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔