|
نئی دہلی – افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ نے جمعرات کو جاری ایک بیان میں بھارت کو ’خطے کا اہم ملک اور معاشی شراکت‘ دار قرار دیا ہے۔
طالبان کی وزارتِ خارجہ کا یہ بیان بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرام مسری اور قائم مقام طالبان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے درمیان دبئی میں بدھ کو ہونے والی ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
اگست 2021 میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان حکومت اور نئی دہلی کے درمیان یہ اعلیٰ سطح پر ہونے والے پہلے مذاکرات تھے۔
طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق بھارت اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو وسعت دینے سمیت ایران کی چاہ بہار بندرگارہ کے ذریعے تجارت بڑھانے جیسے امور پر تبادلۂ خیال ہوا ہے۔
بھارت اپنے پڑوسی ملک پاکستان کی کراچی اور گوادر بندرگار کے مقابلے کے لیے ایران میں چاہ بہار پورٹ بنا رہا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی متوازن اور معیشت پر توجہ پر مبنی خارجہ پالیسی کے تحت افغانستان بھارت کے ساتھ سیاسی و معاشی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔
دوسری جانب بھارت کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ نئی دہلی افغانستان میں ترقیاتی کاموں سمیت تجارتی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت سمیت کسی بھی ملک نے اب تک افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ البتہ بھارت ان کئی ممالک میں شامل ہے جن کے کابل میں مشن کام کر رہے ہیں۔
خطے کے دیگر اہم ملک چین اور روس نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ افغانستان میں سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے تیار ہیں۔
دوسری جانب افغانستان اور اس کے ہمسایہ ملک پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
اسلام آباد کی جانب سے بارہا یہ الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کہ اس کی حدود میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال ہوتی ہے۔ تاہم طالبان کی افغان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
بھارت، طالبان حکومت روابط
بھارت نے گزشتہ ساڑھے تین برس کے دوران طالبان کے نمائندوں کے ساتھ کئی دور کی بات چیت کی ہے۔ وزارتِ خارجہ میں پاکستان، ایران اور افغانستان ڈیسک کے جوائنٹ سکریٹری جے پی سنگھ بات چیت کرتے رہے ہیں۔
انھوں نے نومبر میں کابل کا دورہ کیا تھا اور طالبان حکومت کے وزیرِ دفاع مولوی محمد یعقوب سے ملاقات کی تھی۔ مولوی یعقوب 2020 تک طالبان ملٹری کے چیف رہے ہیں۔
جے پی سنگھ نے امیر خان متقی اور سابق صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس سال ان کا وہ کابل کا دوسرا دورہ تھا۔ اس وقت بھی فریقین نے بالخصوص انسانی بنیادوں پر باہمی تعاون کو فروغ دینے اور دونوں ملکوں میں مذاکرات تیز کرنے پر زور دیا تھا۔
اس تناظر میں سیکریٹری خارجہ وکرم مسری اور امیر خان متقی کی ملاقات کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔
کیا طالبان حکومت اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات رابطے کی وجہ ہے؟
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس اعلیٰ سطحی رابطے کا مطلب یہ نہیں نکالنا چاہیے کہ بھارت کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے پر غور کر رہا ہے۔
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار سنجے کپور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے جا رہا ہے۔
سنجے کپور کے خیال میں اس اعلیٰ سطحی ملاقات کو حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ تعلقات اور بنگلہ دیش کی طرف سے بھارت کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کیے جانے کے تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ پاکستانی فورسز نے دسمبر کے اواخر میں افغانستان کے صوبے پکتیکا اور خوست میں بمباری کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 25 سے 30 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔
بھارت نے پاکستانی فورس کی اس کارروائی کی مذمت کی تھی اور افغانستان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنی اندرونی ناکامیوں کے لیے ہمسایہ ملکوں کو موردِ الزام ٹھہرانا پاکستان کی پرانی عادت ہے۔
یاد رہے کہ بھارت اور پاکستان اپنے ملکوں میں دہشت گردی کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
سنجے کپور کہتے ہیں کہ بھارت کچھ برسوں سے طالبان کے ساتھ سرگرم روابط بنائے ہوئے ہے۔ وہ پاکستان کو کسی بھی قسم کی کارروائیوں سے باز رکھنے کے لیے اسے ضروری سمجھتا ہے۔ اس معاملے میں اسے ایران کی بھی حمایت حاصل ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ایران چاہ بہار بندرگاہ کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ اس بندر گاہ کو بھارت بنا رہا ہے اور اس سے اس کے علاوہ ایران اور طالبان کے بھی مفادات وابستہ ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی وزارتِ خارجہ یا طالبان کے بیان میں خواتین کے حقوق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ممکن ہے کہ طالبان سے اعلیٰ سطحی رابطہ قائم کرنے کے لیے حکومت پر بھارت کی ان نجی کمپنیوں کا بھی دباؤ ہو جو افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں لیکن باہمی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے انھیں بعض دشواریوں کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ صحت سے متعلق بھارت کی تین تنظیموں نے 2019 میں افغان ہیلتھ کمپنی کے ساتھ صحت کے شعبے میں سرگرمیوں میں اضافے سے متعلق 6.5 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا تھا۔
بھارت کے سرکاری ادارے ’اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا‘ (سیل) کی قیادت میں سات کمپنیوں کے ایک کنسورشیم نے لوہے کی کان کے سلسلے میں 6.6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے بارے میں ایک سمجھوتہ کیا تھا۔