پاک افغان سرحد پر پابندیوں کے باعث سیکڑوں خاندان متاثر

پاکستانی علاقے میں لوگ پاک افغان سرحد کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

پاسپورٹ اور ویزہ نہ ہونے کی بنیاد پر سرحد کے دونوں جانب بسنے والے کابل خیل قبیلے کے خاندانوں کو طورخم، غلام خان اور انگور اڈہ کی سرحدی گزرگاہوں سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمد و رفت پر سرحدی پابندیوں کے نفاذ سے شمالی وزیرستان کے منقسم کابل خیل وزیر قبیلے کے سیکڑوں خاندانوں کو شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

شمالی وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے کابل خیل وزیر قبائل پاک افغان سرحد کے دونوں جانب آباد ہیں۔ اس قبیلے کے لیوگوں کی پاکستان کے علاوہ افغانستان کے پکتیا اور پکتیکا صوبوں میں بھی کافی جائیدادیں ہیں۔

شمالی وزیر ستان کے ایک صحافی زاہد وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اس قبیلے کے لوگ گزشتہ کئی دہائیوں سے سرحد پار آتے جاتے رہے ہیں لیکن اب انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

زاہد وزیر کے بقول عرصۂ دراز سے اس قبیلے کے باثروت لوگ گرمیوں کا موسم افغانستان اور سردیوں کا موسم ڈیرہ اسماعیل خان میں گزارتے ہیں۔

زاہد وزیر کے بقول ان قبائلیوں کے بچے بھی پاکستان ہی کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں جب کہ ان کے پاس پاکستان ہی کے شناختی کارڈ، ڈومیسائل سرٹیفیکٹ اور دیگر اسناد بھی موجود ہیں۔

لیکن پاسپورٹ اور ویزہ نہ ہونے کی بنیاد پر اب ان لوگوں کو طورخم، غلام خان اور انگور اڈہ کی سرحدی گزرگاہوں سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

کابل خیل وزیر قبیلے کے سیکڑوں خاندانوں کے علاوہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی ضربِ عضب کے نتیجے میں شمالی وزیرستان بے گھر ہو کر افغانستان منتقل ہونے والوں کی واپسی کا سلسلہ بھی پچھلے کئی ماہ سے معطل ہے۔

شمالی وزیرستان کی انتظامیہ نے اتوار ایک بیان میں ان پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل جلد دوبارہ شروع کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

حکام نے اپنے بیان میں افغانستان میں پھنسے پاکستانی قبائلیوں کو سرحدی گزرگاہ غلام خان کے قریب جمع ہونے کا مشورہ دیا ہے تاکہ ان کے اندراج کے بعد انہیں سرحد پار کرنے کی اجازت دی جاسکے۔

اطلاعات ہیں کہ ان مہاجرین کو پاکستان میں داخلے کے بعد بنوں کے قریب واقع بکاخیل کیمپ منتقل کیا جائے گا جہاں تحقیقاتی عمل مکمل ہونے کے بعد انہیں اپنے دیہات اور گھروں کو واپس جانے کی اجازت دے جائے گی۔

فوجی کارروائی کے دوران افغانستان جانے والے تمام بے گھر افراد کا تعلق شوال اور دیگر علاقوں سے ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ اندراج اور تحقیقاتی عمل کو نہ صرف جلد اور آسان کیا جائے بلکہ یہ تمام عمل غلام خان ہی میں مکمل کیا جائے کیوں کہ اُنہیں باران کیمپ بکاخیل آنے جانے اور رہنے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔