افغانستان میں تشدد کی کارروائیاں بند کرنے کے حوالے سے، امریکی سنٹرل کمان کے کمانڈر نےکہا ہے کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ پاکستان اپنے علاقوں میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے۔
جنرل جوزف ووٹل نے کہا ہے کہ، ’’پاکستان کئی طریقوں سے یہ اقدام کر سکتا ہے: اُنھیں گرفتار کرکے، بے دخل کرکے، ہر طرح کا دباؤ ڈالتے ہوئے تاکہ وہ (شدت پسند) تشدد کی کارروائیوں سے باز آئیں‘‘۔
جنرل ووٹل نے یہ بات ٹمپا، فلوریڈا سے ٹیلی کانفرنس کے ذریعے پینٹگان میں موجود اخباری نمائندوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی۔ اُنھوں نے کہا کہ’’ ہم بھی اس بات کے خواہاں ہیں کہ پاکستان اپنی کوششیں جاری رکھتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے، اور مواقع سے استفادہ کیا جائے‘‘۔
صدر ٹرمپ کی افغان حکمتِ عملی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں جنرل ووٹل نے اس بات کی تصدیق کی کہ پالیسی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے پالیسی میں ’’کسی اہم تبدیلی‘‘ کے امکان کو رد کیا۔ اُنھوں نے اس جائزے کو رواجی عمل قرار دیا، جو جائزہ اِس پر عمل پیرا ہونے کے ایک سال مکمل ہونے پر لیا جا رہا ہے۔
افغان۔پاک امن عمل کے جاری مباحثے کے حوالے سے، افغانستان میں امریکی فوجی کارروائیوں کی نگرانی کرنے والے جنرل نے کہا ہے کہ’’ہم نے افغانستان اور پاکستان کی افواج کے درمیان انتہائی اچھا اور بہتر تعاون دیکھا ہے، جو وہ آپس میں کر رہی ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان محاذ آرائی اور تنازع، کشیدگی اور سرحد کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے واقعات میں واضح کمی آئی ہے‘‘۔
امریکی فوج کے سینئر کمانڈر نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ گذشتہ ماہ کی ’’جنگ بندی افغانستان میں امن کی امنڈتی ہوئی خواہش کے سلسلے کی‘‘ کوششوں کی مظہر ہے؛ اور اب افغانستان میں دیرپہ سیاسی تصفیے اور مجموعی مقصد کے حصول کے حوالے سے پاکستان کو ایک کلیدی اہمیت حاصل ہے‘‘۔
جنرل جوزف ووٹل نے کہا کہ ایک انتہائی غیرمعمولی اور منفرد موقع ہمارے سامنے ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’پاکستان سے حاصل ہونے والا تعاون کلیدی اہمیت کا حامل ہے، تاکہ افغانستان میں ایک دیرپہ سیاسی، مجموعی حل حاصل کیا جاسکے؛ اور یہی وقت ہے کہ وہ (پاکستان) آگے بڑھ کر کام کرے‘‘۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے فوری طور پر جنرل ووٹل کے بیان پر کوئی رد عمل نہیں دیا۔ تاہم، پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بغیر کسی امتیاز کے کارروائی کرتا رہا ہے۔
پچھلے سال اگست میں صدر ٹرمپ نے افغان جنگ میں امریکہ کی شمولیت کے خاتمے سے متعلق حکمت عملی کے از سر نو جائزے کا اعلان کیا تھا۔ ان کی حکمت عملی میں طالبان پر زیادہ فوجی دباؤ ڈالنا، پاکستان سے مزید تعاون کی درخواست کرنا اور امن مذاكرات شروع کرنے پر توجہ مرکوز کرنا شامل تھا۔
جنرل ووٹل نے کہا ہے کہ ہم ہمیشہ سے چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اور ہمیں اس سے کیا نتائج مل رہے ہیں، اس معاملے کا جائزہ لیا جائے؛ اور آگے بڑھتے ہوئے یہ یقینی بنایا جائے کہ ہم غلطیوں کو درست کریں۔
ووٹل نے کہا کہ ان کا تجزیہ امریکی حکومت کی جانب سے حکمت عملی کے وسیع تر جامع جائزے کا ایک حصہ ہے۔
افغان حکمت عملی سے متعلق، اُنھوں نے کہا کہ اس سے نمایاں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں۔