افغانستان میں امریکی فوجی کارروائیوں کی نگرانی کرنے والے ایک جنرل نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ وہ تقریباً سال پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اختیار کردہ جنگی حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لے رہے ہیں۔
جنرل جوزف ووٹل نے کہا کہ ان کے جائزے میں ان پہلوؤں کو زیر غور لایا جائے گا جس سے طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے امن مذاكرات کے حصول کا امکان بہتر بنانے میں مدد ملے۔
پچھلے سال اگست صدر ٹرمپ نے افغان جنگ میں امریکہ کی شمولیت کے خاتمے سے متعلق حکمت عملی کے از سر نو جائزے کا اعلان کیا تھا۔
ان کی حکمت عملی میں طالبان پر زیادہ فوجی دباؤ ڈالنا، پاکستان سے مزید تعاون کی درخواست کرنا اور امن مذاكرات شروع کرنے پر توجہ مرکوز کرنا شامل تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ر پورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنرل ووٹل نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اور ہمیں اس سے کیا نتائج مل رہے ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے۔ اور آگے بڑھتے ہوئے یہ یقینی بنایا جائے کہ ہم غلطیاں درست کر رہے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ ایک سال گزارنے کے بعد ہم یہ کرنے جا رہے ہیں۔
ووٹل نے کہا کہ ان کا تجزیہ امریکی حکومت کی جانب سے حکمت عملی کے وسیع تر جامع جائزے کا ایک حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ پیش گوئی نہیں کرتے کہ اس کے نتیجے میں امریکہ کی افغان حکمت عملی میں کوئی بڑی تبدیلی آئے گی ۔ افغان حکمت عملی کے متعلق انہوں نے کہا کہ اس سے نمایاں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں۔
اس وقت افغانستان میں تقریباً 15 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔