پاکستان نے گزشتہ ہفتے جوہری مواد کے تحفظ سے متعلق 2005ء کے ایک عالمی معاہدے کی توثیق کی ہے جس کی رو سے پاکستان اپنے سویلین جوہری مواد کو محفوظ بنانے اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے عمل کے دوران اسے محفوظ رکھنے کا پابند ہوگا۔
وائس آف امریکہ اردو کے پروگرام انڈی پنڈنس ایونیو میں بات کرتے ہوئے ممتاز ماہر طبیعات، ڈاکٹر پرویز ہودبھائے نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کے سویلین جوہری پروگرام کو تو مانیٹر کیا جا سکتا ہے، لیکن دفاعی مقاصد کے لئے تیار کئےجانے والے جوہری مادے کا تحفظ یا اس کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جانا ایک خفیہ کام ہوتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’’کوئی ملک یہ اعلان نہیں کرتا کہ وہ اپنے خفیہ ایٹمی مواد کو کب، کہاں اور کیسے منتقل کر رہا ہے۔ اس لئے اس کی مانیٹرنگ ممکن نہیں ہے ۔۔ نہ ہی کوئی ایٹمی ملک اپنے فوجی مقاصد کے ایٹمی مواد کی مانیٹرنگ پر تیار نہیں ہوگا‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک دنیا کے ملک ایٹمی ہتھیاروں کو مکمل طور پر ختم کرنے پر رضامند نہیں ہوتے۔ ایٹمی تحفظ سے متعلق خدشات اور خطرات موجود رہیں گے، کیونکہ اب کسی بھی ملک کے لئے زیر زمین ایٹمی تنصیبات رکھنا اور انہیں چھپانا آسان ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر پرویز ہودبھائے کا کہنا تھا کہ ’’کسی دہشت گرد گروہ کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کا حاصل کرنا یا انہیں استعمال کرنے کے قابل ہونا آسان نہیں، تو ناممکن بھی نہیں ہے۔ تابکاری مادہ، جو پلوٹونئیم ری ایکٹرز میں بنتا ہے، اسے ایک ڈرٹی بم یا ریڈیولاجیکل بم کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے بہت نقصان ہو سکتا ہے اور بہت خوف بھی پھیل سکتا ہے۔ ہاں ہیرو شیما جیسا بم بنانا مشکل ہے۔ لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی ملک ریڈیائی مادہ تیار کرتا ہے اور اس ملک میں ایسے دہشت گرد موجود ہوں جو اسے چرا کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہیں تو ایسا ہونا نا ممکن نہیں ہے، خصوصاً اگر ایٹمی مواد کی تیاری کے عمل میں شامل افراد میں چند دہشت گردوں کے ہمدرد ہوں یا دہشت گردوں کے مقاصد سے ہمدردی رکھتے ہوں۔ آج دنیا اسی وجہ سے پریشان ہے اور یہ پریشانی بے یا نہیں ہے‘‘۔
دفاعی تجزیہ کار ریٹائرڈ ائیر چیف مارشل شہزاد چوہدری کا کہنا تھا کہ دنیا کے ’’ایٹمی ذخائر کو مکمل طور پر ختم کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ لیکن، یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کا کم سے کم 95 فیصد حصہ آئی اے اِی اے کے ماتحت مانیٹر کیا جا سکے۔ مسئلہ بھارت جیسے ملکوں میں ہوگا جہاں 14 ایسے ایٹمی پاور پلانٹ ہیں، جو آئی اے اِی اے کی مانیٹرنگ کے ماتحت نہیں ہیں۔ کیا وہاں تیار کیا جانے والا افزودہ یورینئیم تمام سویلین مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ دیکھنا پڑے گا‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’دنیا میں اب تک ریڈیائی مواد کی غلط انداز سے استعمال، ترسیل یا چوری کے جو تین ہزار واقعات پیش آئے ہیں، ان میں سے ایک بھی واقعہ پاکستان سے متعلق نہیں ہے۔۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی عمر تیس اکتیس سال ہو چکی ہے۔اور ماضی کے کسی ٹریک ریکارڈ کی غیر موجودگی میں پاکستان کے ایٹمی مواد کے تحفظ کے بارے میں شبہات یا خدشات کے اظہار کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی‘‘۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک، یو ایس آئی پی کے جنوبی ایشیا سینٹر کے ڈائریکٹر معید یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیر اعظم کی واشنگٹن میں جوہری سلامتی سے متعلق کانفرنس میں عدم شرکت سے واشنگٹن میں طے شدہ کچھ اہم ملاقاتیں نہیں ہو سکیں۔ ان کے بقول، ’’روس کی طرف سے کانفرنس کا بائیکاٹ ایک بڑا نقصان تھا؛ کیونکہ امریکہ، روس اور چین جیسے ملک مل کر ہی دنیا کو جوہری تحفظ کی طرف لے جانے میں کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں‘‘۔
جوہری سلامتی سے متعلق واشنگٹن میں ہونے والی حالیہ کانفرنس صدر اوباما کے دور اقتدار میں ہونے والی چوتھی اور ممکنہ طور پر آخری کانفرنس ہو سکتی ہے۔ امریکہ میں یہ سال نئے صدارتی انتخاب کا سال ہے۔ کیا آئندہ امریکی صدر بھی جوہری توانائی کے تحفظ کو اپنے ایجنڈے میں اتنی ہی اہمیت دے گا جتنی صدر اوباما نے دی؟ یہ اگلے سال 20 جنوری کے بعد معلوم ہوگا، جب اگلا امریکی صدر اپنا عہدہ سنبھال لے گا۔