امریکہ کے صدر براک اوباما نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں یا تابکار مواد داعش جیسے "دیوانے" گروہوں کے ہتھے چڑھنے سے روکنے کے لیے دنیا بھر میں جوہری تنصیبات کے حفاظتی انتظامات میں اضافہ کریں۔
جوہری سلامتی کے موضوع پر واشنگٹن میں جاری دو روزہ سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ جوہری دہشت گردی کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے باوجود یہ خطرہ نہ صرف بدستور برقرار ہے بلکہ اس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔
جمعے کو دو روزہ اجلاس کےدوسرے روز اپنے افتتاحی خطاب میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ گو کہ اب تک دنیا کا کوئی دہشت گرد گروہ جوہری مواد حاصل کرنے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ لیکن ان کے بقول القاعدہ ہمیشہ سے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی خواہش مند رہی ہے جب کہ داعش کی جانب سے برسلز اور پیرس میں کیے جانے والے حالیہ حملوں کے بعد اس تنظیم کے ارادوں کے متعلق بھی خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر خدانخواستہ کبھی کوئی جوہری بم یا تابکار مواد ان "دیوانوں" کے ہاتھ لگ گیا تو وہ اسے عام انسانوں کے قتلِ عام کے لیے لازمی استعمال کریں گے۔
صدر اوباما کے دورِ اقتدار کے دوران نیوکلیئر سکیورٹی پر ہونے والا یہ چوتھا اور آخری سربراہی اجلاس ہے جس میں 50 سے زائد ملکوں کے سربراہان اور اعلیٰ نمائندے شریک ہیں۔
دو روزہ کانفرنس میں شریک وفود نے جوہری خطرات اور ان سے بچنے کے طریقوں پر بات چیت کی ہے۔ شمالی کوریا کی جانب سے حالیہ جوہری اور میزائل تجربات اور شدت پسند تنظیم داعش سے لاحق نیوکلیئر دہشت گردی کے خطرے جیسے معاملات کانفرنس کے ایجنڈے میں سرِ فہرست ہیں۔
تاہم کانفرنس میں دنیا کی دوسری بڑی جوہری طاقت – روس – کی عدم شرکت نے اس کانفرنس کی افادیت اور کوئی بڑا فیصلہ سامنے آنے کے امکان کو معدوم کردیا ہے۔
بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں گزشتہ ماہ ہونے والے بم دھماکوں نے مغربی حکومتوں کے ان خدشات میں اضافہ کردیا ہے کہ داعش یورپ کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکتی ہے یا تابکار مواد کی چوری کی کوشش کرسکتی ہے۔
اپنے خطاب میں صدر اوباما نے کہا کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں مختلف مقامات پر لگ بھگ دو ہزار ٹن جوہری مواد ذخیرہ ہے جس کے بعض حصے نسبتاً کم محفوظ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ مواد دہشت گردوں کے ہتھے چڑھنے سے روکنے کے لیے عالمی رہنماؤں کو مزید اقدامات کرنے اور باہمی تعاون میں اضافے کی ضرورت ہے۔