صدر براک اوباما کی سربراہی میں جمعرات کو واشنگٹن میں جوہری سلامتی کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز ہوگیا ہے جس میں 50 سے زائد ملکوں کے سربراہان اور اعلیٰ نمائندے شریک ہیں۔
کانفرنس ایک ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب ٹنوں کے حساب سے خام جوہری مواد اب بھی اتنا محفوظ نہیں اور ممکنہ طور پر اس کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ موجود ہے۔
صدر اوباما کے دورِ اقتدار کے دوران نیوکلیئر سکیورٹی پر ہونے والا یہ چوتھا اور آخری سربراہی اجلاس ہے۔
جمعرات کو سربراہی اجلاس کی افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ شمالی کوریا کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی مسلسل تیاری کے باعث دنیا مسلسل خطرے سے دوچار ہے جب کہ جوہری ہتھیار داعش کے ہتھے چڑھنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
اجلاس کے باضابطہ آغاز سے قبل صدر اوباما نے وہائٹ ہاؤس میں جنوبی کوریا کی صدر پارک گیون ہئی اور جاپانی وزیرِاعظم شینزو ایبے سے ملاقات کی جس میں تینوں رہنماؤں نے شمالی کوریا کے حالیہ جوہری تجربے اور میزائل تجربات سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا۔
اس سہ فریقی ملاقات کے بعد صدر اوباما نے چین کے صدر ژی جن پنگ سے بھی ملاقات کی جس میں ہونے والی گفتگو میں بھی شمالی کوریا کا معاملہ سرِ فہرست رہا۔
خیال رہے کہ چین شمالی کوریا کا سب سے بڑا اتحادی ہے لیکن حالیہ عرصے کے دوران چینی حکومت بھی شمالی کوریا کی ہٹ دھرمی اور میزائل تجربات پر ناگواری ظاہر کرتی رہی ہے۔
وائٹ ہاوس کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروپوں کی طرف سے جوہری حملے کے امکانات کا اندازہ لگانا ناممکن ہے لیکن دنیا بھر میں فوجی اور سول جوہری پروگراموں سے منسلک تقریباً دو ہزار میٹرک ٹن انتہائی افژودہ یورینیئم اور پلوٹونیئم موجود ہے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے نائب مشیر بین روہڈز کا کہنا ہے کہ "ہمیں معلوم ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کی خواہش ہے کہ اس خام مواد تک رسائی ہو اور وہ ایک جوہری ہتھیار کی خواہش رکھتی ہیں۔" ان کے بقول بین الاقوامی جوہری سلامتی میں تعاون کو دگنا کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کانفرنس میں پہلی بار ایک خاص سیشن شامل کیا گیا ہے جس میں اس بارے میں تبادلہ خیال کیا جائے گا کہ کس طرح اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ داعش جیسے گروپوں کے ہاتھ جوہری مواد نہ لگے۔
دو روزہ کانفرنس میں شریک وفود جوہری خطرات اور ان سے بچنے کے طریقوں پر بات چیت کریں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کرنا تھی مگر اتوار کو لاہور میں ہونے والے بم دھماکے کے باعث انہوں نے اپنا دورہ منسوخ کر دیا تھا۔ ان کی جگہ اب وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اس کانفرنس میں پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔
ادھر روس نے بھی اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اجلاسوں کا کردار ختم ہو چکا ہے۔
اس کے جواب میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے بدھ کو کہا تھا کہ ’’ہماری ترجیح ہے کہ وہ مثبت کردار ادا کریں۔‘‘
دیگر ملکوں کے حکام نے بھی اس سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
رواں ماہ برسلز میں ہونے والے دہشت گرد حملوں سے داعش جیسے گروپوں سے لاحق خطرے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان حملوں کے بعد بیلجیئم نے اپنی جوہری تنصیبات کی سکیورٹی بڑھائی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جوہری مواد کی نگرانی کے لیے موثر بین الاقوامی حکمت عملی درکار ہے۔