شمالی اور جنوبی وزیرستان میں حکام نے واضح کیا ہے کہ علاقے میں دفعہ 144 نافذ نہیں اور نہ ہی سیاسی سرگرمی یا جلسوں کے انعقاد کی کوئی ممانعت ہے۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان میں گزشتہ دو ماہ سے امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی عائد تھی، تاہم 20 جولائی کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے سلسلے میں اب یہ پابندی اٹھا لی گئی ہے۔
مئی کے آخر میں خڑ کمر کے علاقے میں فوج کی چیک پوسٹ پر ہونے والے تصادم کے بعد علاقے میں کرفیو کے نفاذ کے علاوہ دفعہ 144 بھی نافذ کر دی گئی تھی، جس کے تحت لوگوں کے اجتماع سمیت کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں تھی۔
ضلعی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر منظور آفریدی نے سوموار کے روز ذرائع ابلاع کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں دفعہ 144 ہٹانے کا اعلان کیا۔
جنوبی وزیر ستان کے ڈپٹی کمشنر نعمان افضل نے بھی ذرائع ابلاع کو دفعہ 144 ہٹائے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اب امیدوار اور مختلف سیاسی جماعتوں کے عہدیدار بغیر کسی رکاوٹ کے جلسے اور جلوس منعقد کرسکتے ہیں۔
دونوں علاقوں میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے الزام میں حزب اختلاف میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے دفاتروں پر چھاپوں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ نقص امن کے خدشات کے تحت پشتون تحفظ تحریک کے بعض امیدواروں کو بھی حراست میں لے کر ڈیرہ اسماعیل خان اور ہری پور کی جیلوں میں رکھا گیا تھا۔
چند روز قبل مقامی عدالت کے حکم پر پشتون تحفظ تحریک کے دو امیداروں کو رہا کردیا گیا ہے۔
ادھر مختلف قبائلی اضلاع میں سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انتخابات میں حصہ لینے والے بعض امیدوارں کو سیکورٹی خطرات کے پیش نظر محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
ان امیداروں میں ضلع خیبر سے صوبائی اسمبلی کی عام نشست پر حصہ لینے والی خاتون امیدوار ناہید آفریدی بھی شامل ہیں جن کو ضلعی انتظامیہ نے تحریری طور پر ان کی زندگی کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات 20 جولائی کو شیڈول ہیں، یہ انتخابات پہلے دو جولائی کو ہونا تھے تاہم صوبائی حکومت کی درخواست پر انھیں 20 جولائی تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔
قبائلی اضلاع کو پاکستان کی پارلیمان نے 25 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کیا تھا۔