شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کی بہن کم یو جُونگ نے ملک میں پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔
شمالی کوریا نے حالیہ دنوں میں جنوبی کوریا پر دباؤ بڑھانے کے لیے نئی مہم کا آغاز کیا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس پالیسی کے پیچھے بنیادی کردار کم جونگ اُن کی بہن کا ہی ہے جو اپنے بھائی کی مشیر ہیں لیکن اب ان کا کردار مشیر سے کہیں زیادہ اہم ہوتا جا رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق کم یو جُونگ کی عمر 30 سال سے کچھ زائد ہو سکتی ہے۔ وہ کم جونگ اُن کے قریبی عزیزوں اور رشتے داروں میں واحد شخصت ہیں جو شمالی کوریا کی سیاست میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں اور عوامی طور پر نمایاں بھی ہیں۔
کم یو جُونگ 19-2018 میں اس وقت عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنیں جب جنوبی کوریا میں ہونے والے سرمائی اولمپکس میں انہوں نے شمالی کوریا کے دستے کی قیادت کی۔
بعد ازاں اکثر اوقات دیکھا گیا کہ وہ ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں کہ وہ اپنے بھائی کم جونگ اُن کی معاونت کر سکیں۔ حتیٰ کہ جب کم جونگ اُن امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے ٹرین کے ذریعے ویتنام روانہ ہو رہے تھے تو وہ ٹرین اسٹیشن پر ان کے لیے ایش ٹرے لیے کھڑی تھیں۔
تاہم رواں برس ان کا کردار عوامی پالیسی سازی میں نمایاں ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ساتھ ہی وہ خود کو ایک بااثر سیاسی کھلاڑی کے طور پر بھی پیش کر رہی ہیں۔
امریکی حکومت میں سابق انٹیلی جنس تجزیہ کار ریچل مِنیانگ لِی کا کہنا ہے کہ پہلے کم یو جُونگ کو شمالی کوریا میں سرکاری ذرائع ابلاغ میں صرف کم جونگ اُن کی بہن کے طور پر دکھایا جاتا تھا یا یہ بتایا جاتا تھا کہ وہ اُن کی پروٹوکول افسر یا سرکاری معاون ہیں۔ لیکن اب شمالی کوریا میں عوام کو یقین ہے کہ ان کی حیثیت اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق کم یو جُونگ پیسِ پردہ رہ کر شمالی کوریا میں پروپیگنڈا ایجنسیاں چلاتی رہی ہیں۔ اسی وجہ سے امریکہ نے 2017 میں جب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سینسرشپ کی وجہ سے شمالی کوریا کی کئی اہم شخصیات پر پابندیاں عائد کیں تو اس فہرست میں ان کا نام بھی شامل تھا۔
شمالی کوریا کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے رواں برس مارچ میں پہلی بار ان کا ایک بیان نشر کیا جس میں انہوں نے جنوبی کوریا کے حکام پر تنقید کی تھی۔ اس کے بعد ان کے کئی بیانات سامنے آئے جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردِ عمل شامل تھا۔
گزشتہ ہفتے بھی ایک بیان میں انہوں نے دھمکی دی تھی کہ شمالی کوریا کی جانب سے جنوبی کوریا سے رابطوں کے تمام ذرائع منقطع کر دیے جائیں گے۔
امریکہ کی حکومت میں سابق انٹیلی جنس تجزیہ کار ریچل مِنیانگ لِی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کم یو جُونگ کے بیان میں ایک انفرادیت تھی جس سے ان کی شخصیت واضح ہو رہی تھی کہ اب وہ ایک طاقتور مقام پر ہیں۔
گزشتہ روز جب شمالی کوریا میں سرکاری ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا کہ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں ہاٹ لائن پر رابطہ منقطع کیا جا رہا ہے تو اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ کم یو جُونگ اور ایک اور سخت گیر فیصلوں کے لیے مشہور کَم یونگ چل نے اجلاس میں اس فیصلے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس حوالے سے امریکی تھنک ٹینک 'اسٹیمسن سینٹر' میں شمالی کوریا کی قیادت کے حوالے سے تجزیہ کار مائیکل ماڈن کا کہنا تھا کہ کم یو جُونگ کے پالیسی سازی میں کردار کو نمایاں کرنا ایک غیر معمولی بات ہے جب کہ اس سے ان کے انتہائی اہم ہونے کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا میں کم یو جُونگ کی نئے انداز سے عکاسی کو شاید بین الاقوامی تجزیہ کار اہمیت نہ دیں کیوں کہ شمالی کوریا کی مردوں کی برتری کے تصور والی معاشرت میں وہ کم یو جُونگ کے اثر و رسوخ کو استعمال کرنے پر شبہات رکھتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی تجزیہ کار ان سے بہت سی امیدیں اور امکانات تو جوڑ رہے ہیں لیکن وہ انہیں شمالی کوریا کا اگلا رہنما نہیں سمجھتے۔ البتہ وہ بادشاہ گر یا نیا رہنما بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی ضرور ہو سکتی ہیں۔