پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق بلے باز ناصر جمشید نے بنگلہ دیش پریمیئر لیگ اور پاکستان سپر لیگ میں میچ فکسنگ کا اعتراف کر لیا ہے۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے بی پی ایل اور پی ایس ایل میں کھلاڑیوں کو رشوت دینے اور میچ فکسنگ کی تحقیقات کر رہی ہے۔
این سی اے کے مطابق پیر کو مانچسٹر کی کراؤن کورٹ میں ناصر جمشید رشوت لینے کے جرم کے مرتکب قرار پائے ہیں۔
این ای سی کے مطابق ناصر جمشید برطانوی شہری یوسف انور اور محمد اعجاز کے ساتھ مل کر 10 دسمبر 2019 کو بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کے کھیلے گئے ایک میچ کے دوران میچ فکسنگ کی سازش کا حصہ رہے جب کہ وہ دیگر کھلاڑیوں کو میچ فکسنگ کے لیے اکسانے کے مرتکب بھی قرار پائے ہیں۔
ناصر جمشید اور دو برطانوی شہریوں کو اسپاٹ فکسنگ کیس میں فروری 2020 میں سزا سنائی جائے گی۔
این ای سی کے مطابق یوسف انور اور محمد اعجاز نے میچ فکسنگ کا منصوبہ تیار کیا جس کے نتیجے میں بعض کھلاڑیوں نے اس منصوبے پر رضا مندی ظاہر کی اور ناصر جمشید بھی اس منصوبے میں پیش پیش تھے۔
Ex-professional Pakistani cricketer, Nasir Jamshaid, has admitted bribing cricketers to fix elements of international matches following a covert investigation by the National Crime Agency.Full story ➡️ https://t.co/y5sdV3cjMx pic.twitter.com/qi0v8hhnRa
— National Crime Agency (NCA) (@NCA_UK) December 9, 2019
این سی اے کے مطابق تینوں افراد نے بی پی ایل کے بعد پاکستان سپر لیگ کے دبئی میں کھیلے گئے میچز کے دوران بھی فکسنگ کا منصوبہ بنایا۔ بعدازاں فروری 2017 میں انور نے اسلام آباد یونائیٹڈ کے کھلاڑی خالد لطیف اور شرجیل خان سے بھی ملاقات کی اور ان دونوں کھلاڑیوں نے بھی کرکٹ میں کرپشن کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔
اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی کے درمیان نو فروری 2017 کو دبئی میں کھیلے گئے میچ میں شرجیل خان نے منصوبے کے تحت دوسرے اوور کی ابتدائی دو گیندیں ضائع کیں اور تیسری گیند پر بغیر کوئی رنز بنائے آؤٹ ہوئے۔
یاد رہے کہ ناصر جمشید ویسٹ مڈلینڈز کے علاقے اولڈ بری میں رہائش پذیر ہیں۔ این سی اے کے حکام نے 13 فروری 2017 کو اُنہیں ان کے گھر سے حراست میں لیا تھا جب کہ انور کو دبئی سے واپس برطانیہ پہنچنے پر ہیتھرو ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کیا گیا۔
The group were plotting to fix elements of the 2016 Bangladesh Premier League T20 tournament.Anwar and Ijaz developed a system by which they would identify a professional player willing to partake in an agreed fix. Typically, they would charge £30,000 per fix. pic.twitter.com/ULZWwvE1eb
— National Crime Agency (NCA) (@NCA_UK) December 9, 2019
اسی طرح اسپاٹ فکسنگ کے تیسرے کردار اعجاز کو این سی اے نے دس روز بعد ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا تھا۔
اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ناصر جمشید، خالد لطیف، شرجیل خان اور محمد عرفان کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے اینٹی کرپشن ٹریبونل نے پہلے ہی معطل کر رکھا ہے۔
این سی اے کے سینئر تفتیشی افسر این میک کونیل کا کہنا ہے کہ ملزمان نے ذاتی فوائد کے لیے کرپشن کے ذریعے کھیل کو داغدار کرنے اور شائقین کا اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مرتکب قرار پائے ہیں۔