پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں کا اجلاس فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کی قرارداد پر بحث یا منظوری کے بغیر ہی غیر معینہ مدت تک ملتوی ہو گیا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی صدارت میں شروع ہوا تو حزبِ اختلاف کے اراکین نے قرارداد پر بات کرنا چاہی۔ تاہم اسپیکر نے وقفۂ سوالات کا آغاز کر دیا۔
حزبِ اختلاف نے احتجاج کرتے ہوئے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا۔ تو قاسم سوری نے محض 15 منٹ کی کارروائی کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا۔
قبل ازیں 20 اپریل کو حکومتی جماعت کے رکن امجد علی خان نیازی نے پیغمبرِ اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی حمایت کرنے پر فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے پر بحث کی قرارداد ایوان میں پیش کی تھی۔
قراداد ایوان میں پیش کیے جانے پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی - ف) نے حمایت کا عندیہ دیتے ہوئے مشترکہ قرارداد لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اس عمل میں شریک نہیں ہوئی۔
ایجنڈے میں قرارداد شامل نہیں تھی
جمعے کے اجلاس کے ایجنڈے میں فرانس کے سفیر سے متعلق قراداد کا ذکر نہیں تھا اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے حکومت کی معمول کی کارروائی کا نو نکاتی ایجنڈا جاری کیا تھا۔
مبصرین جمعے کے اجلاس کو ایک غیر معمولی اجلاس کے طور پر دیکھ رہے تھے جس میں فرانس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے حکومت کو سفارشات دی جانی تھیں۔ تاہم یہ اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔
SEE ALSO: 'فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سے متعلق حتمی فیصلہ حکومت ہی کرے گی'قرارداد پر بحث کے بغیر اجلاس ملتوی کیے جانے پر حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس عمل کو حکومتی پالیسی میں تذبذب قرار دیا۔
’حکومت اب اس معاملے سے بھاگنا چاہتی ہے‘
میڈیا سے گفتگو میں سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے قرارداد کے حوالے سے کہا کہ یہ معاملہ ہر پاکستانی کے دل کے قریب ہے لیکن حکومت اب اسے معاملے سے بھاگنا چاہتی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسپیکر اس معاملے پر جمعے کی شام یا ہفتے کو اجلاس بلائیں کیوں کہ قوم اور دنیا کی نظریں پارلیمان کی جانب دیکھ رہی ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ معاملہ سیاست کا نہیں۔ بلکہ ہر فرد کے دل کے قریب ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ متفقہ قرارداد کے ذریعے پاکستان کے عوام کے جزبات پوری دنیا تک پہنچ سکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا مؤقف ہے کہ یہ ریاست کا معاملہ ہے۔ حکومت اس معاملے پر اپنی پالیسی ایوان میں رکھے تاکہ پوری دنیا کو پاکستان کی متفقہ آواز پہنچائی جا سکے۔
’حزبِ اختلاف کو ایوان میں بحث نہیں کرنے دی گئی‘
اس موقع پر سابق وزیرِ اعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ عجلت میں پیش کی گئی قرارداد پر آج حزبِ اختلاف کو ایوان میں بحث نہیں کرنے دی گئی جس سے حکومتی تذبذب ظاہر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اس قرارداد پر حکومت سے کچھ سوالات کرنا چاہتی تھی کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ حکومت نے کیا معاہدہ کیا ہے۔
راجہ پرویز اشرف کا مزید کہنا تھا کہ وہ حکومت سے جاننا چاہتے تھے کہ ایک دن ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور دوسرے دن معاہدہ کر لیا جاتا ہے۔ اس سارے معاملے سے پارلیمنٹ تاحال لاعلم ہے۔
’مسلم لیگ (ن) ادھار چکانا چاہتی ہے‘
دوسری جانب مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ اس معاملے پر کیے گئے اقدامات سے لگتا ہے کہ حکومت ابہام کا شکار ہے جو کہ اس صورتِ حال سے نکلنے میں کسی صورت مددگار ثابت نہیں ہو گا۔
تجزیہ کار خورشید ندیم کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی آج کی کارروائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت فرانس کے سفیر کے معاملے پر قرارداد کا حل تلاش کرنے کے بجائے ٹال مٹول اور فرار کا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے اسی طرح کی حکمتِ عملی گزشتہ سال ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنائی تھی جس کے نتیجے میں پر تشدد احتجاج ہوا اور اب یہ معاملہ ایک بڑے مسئلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے اعلان کیا کہ فرانس کے سفیر کو نکالنا ملک کے مفاد میں نہیں۔ لیکن عمران خان کے اس پالیسی بیان کے چند گھنٹے بعد ہی وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے۔ حکومت فرانس کی سفیر کو نکالنے کے معاملے پر پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کرے گی۔
خورشید ندیم کہتے ہیں کہ یہ بلکل یمن جنگ والی صورتِ حال ہے جب تحریک انصاف نے اس وقت کی حکومت کو مجبور کیا تھا کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے کر آیا جائے اور پھر پارلیمنٹ سے افواج یمن نہ بھجوانے کی ایک سخت قرارداد بھی منظور کرا لی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ فرانس کے سفیر کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) وہ ادھار چکانا چاہتی ہے۔ کیوں کہ یمن میں افواج نہ بھجوا کر نواز شریف نے قیمت چکائی تھی۔
اسپیکر قومی اسمبلی کے پارلیمانی رہنماؤں کو خطوط
علاوہ ازیں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایوان کی تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کو خطوط ارسال کیے ہیں جن میں فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کی قرارداد پر غور کے لیے مجوزہ خصوصی کمیٹی میں شمولیت کے لیے اراکین کے نام تجویز کرنے کا کہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جمعرات کی شام قومی اسمبلی سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اسپیکر اسد قیصر کی ہدایات پر فرانسیسی جریدے میں یکم ستمبر کو گستا خانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف پیش کی گئی قرارداد پر خصوصی کمیٹی کے لیے نام طلب کیے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ خصوصی کمیٹی رکن قومی اسمبلی امجد علی خان کی جانب سے 20 اپریل کو ایوانِ زیریں میں پیش کردہ قرارداد پر غور کرے گی۔
حزبِ اختلاف کے دو جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماء اسلام (ف) قرارداد کے معاملے پر کمیٹی کے قیام کی پہلے ہی مخالفت کر چکی ہیں۔
منگل کو ہونے والے اجلاس میں شرکت نہ کرنے والی پیپلز پارٹی نے جمعے کے اجلاس میں شرکت کی۔ تاہم پارٹی نے مجوزہ کمیٹی میں شمولیت کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔