مردوں کی محتاجی چھوڑو، آگے بڑھو اور دنیا کو بدلو: ملالہ

ڈیوس

حقوقِ نسواں کی نامور راہنما اور نوبیل انعام یافتہ، ملالہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ ’’تحریک آزادیِ نسواں مساوات کا محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ضرورت ہے، جس کے بارے میں کسی کو کوئی اعتراز نہیں ہو سکتا‘‘۔

سوٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں جاری ’عالمی اقتصادی فورم‘ سے خطاب کرتے ہوئے، ملالہ نے عورتوں پر زور دیا کہ ’’مَردوں کی مدد کا انتظار کیے بغیر آگے بڑھو اور دنیا کو بدل ڈالو‘‘۔

ملالہ نے کہا کہ ’’آج زیادہ تر خواتین اپنے حقوق کے بارے میں آگہی اور شعور رکھتی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ لڑکوں کو باوقار اور پختہ درس دیا جائے کہ عورتوں کے حقوق کیا ہوتے ہیں، تاکہ دنیا کے معاشروں میں کبھی تہذیب و تمیز کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’مرد بننے کے لیے لازم ہے کہ معاشرے کی تمام خواتین کے مساوی حقوق کو تسلیم کیا جائے۔ ساتھ ہی ضرورت اس بات کی ہے کہ بچیوں کی تعلیم پر بھی مزید زور دیا جائے‘‘، جو، بقول اُن کے، ’’ایک اجتماعی ذمہ داری ہے‘‘، بشمول عالمی سربراہان کے ’’جنھیں اس کام میں دل جمعی سے اور حتی الوسع کردار ادا کرنا ہوگا‘‘۔

لڑکیوں کی تعلیم کے لیے عالمی سطح پر سرگرم پاکستانی، ملالہ یوسف زئی نے خواتین کے مسائل پر آواز اٹھانے اور انہیں حقوق دلانے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ حال ہی میں ملالہ نے ’ایپل کمپنی‘ کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا ہے جس کے تحت پاکستان، افغانستان، ترکی اور نائیجریا میں ایک لاکھ کے قریب لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا۔

ملالہ نے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے ہمراہ نشست کے دوران خطاب کیا، جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے علاوہ دیگر عالمی سربراہان ڈیوس تشریف لاچکے ہیں۔ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی، وزیر اعظم خاقان عباسی کر رہے ہیں۔

بارہ جولائی 1997ء میں منگورہ میں پیدا ہونے والی، طور پکئی (گل مکئی) یوسفزئی، جو شدت پسند حملے میں شدید زخمی ہوئی تھیں اور بیرون ملک علاج کے نتیجے میں اب صحت یاب ہیں، بچیوں کی تعلیم کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔

عالمی سربراہان سے خطاب میں ملالہ نے کہا کہ ہم ’’مَردوں سے نہیں کہیں گے کہ دنیا بدلنے میں ہماری مدد کرو، ہم یہ کام احسن طریقے سے خود ہی کر لیں گے‘‘۔

بقول اُن کے ’’ہم اپنے حقوق کے لیے ڈٹ کے کھڑی ہوجائیں گی، ہم اپنی آواز بلند کریں گی اور ہم میں اتنی سکت ہے کہ ہم دنیا کو بدل ڈالیں‘‘۔

ملالہ ابھی بچی تھیں جب 2012ء میں اسکول جاتے ہوئے، شدت پسندوں نے گولیاں چلا کر، اپنی دانست میں، مار ڈالا تھا۔ وہ اب عالمی سطح پر انتہاپسندی کے خلاف ایک طاقتور آواز بن چکی ہیں، جب کہ خواتین کی تعلیم کی ایک دھڑکن ہیں۔

اُنھیں 2014ء میں نابیل امن انعام ملا، اور وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہیں۔

ملالہ نے کہا کہ ’’مساوات صرف ایک لفظ نہیں، ایک جدوجہد ہے۔۔ یہ انتہائی عام سا جذبہ ہے۔ یہ مطالبہ اتنا گنجلک نہیں جتنا مرد حضرات نے اِسے بنا ڈالا ہے‘‘۔