ترکیہ: کرد باغی گروپ کا ہتھیار ڈالنے کا اعلان؛ جیل میں قید رہنما کی رہائی کا مطالبہ

  • کردستان ورکرز پارٹی ترکیہ، عراق، شام اور ایران کے کرد اکثریتی علاقوں میں الگ کرد ریاست کا قیام چاہتی ہے۔
  • سن 1999 سے جیل میں قید گروپ کے سربراہ عبداللہ اوجلان نے ہتھیار ڈالنے اور پارٹی تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
  • ترک حکومت کا الزام ہے کہ پی کے کے ترکیہ میں دہشت گردی کےو اقعات میں ملوث رہی ہے۔

ویب ڈیسک -- ترکیہ مخالف اور آزاد کرد ریاست کے حامی گروپ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے سربراہ کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے اعلان کے بعد مسلح گروپ نے ہفتے سے جنگ بندی پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق 25 برس سے جیل میں قید باغی رہنما عبداللہ اوجلان نے جمعرات کو پارٹی تحلیل کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

اس پیش رفت کو ترکیہ اور خطے کی سیاست کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت سے 1984 میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد کا اختتام ہو جائے گا جس میں اب تک مجموعی طور پر 40 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس اقدام سے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کو فائدہ پہنچے گا اور اس سے جنوب مشرقی ترکیہ میں امن و ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی جہاں کی معیشت کو تنازع کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا تھا۔

جنوب مشرقی ترکیہ اور شام سے ملحقہ سرحد کے اطراف کرد آباد ہیں۔ ترکیہ کی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ 'پی کے کے' کے جنگجو ترکیہ میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ملوث ہیں۔ ترک فوج وقتاً فوقتاً ان کے خلاف کارروائیاں بھی کرتی رہی ہے۔

باغی گروپ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں ترکیہ کی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ 1999 سے قید عبداللہ اوجلان کو نقل و حرکت کی اجازت دے، تاکہ وہ ہتھیار ڈالنے کے عمل کو آگے بڑھا سکیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم جنگ بندی کا اعلان کر رہے ہیں جس کا اطلاق ہفتے سے ہو گا۔ ہماری فورسز اب کوئی مسلح کارروائی نہیں کریں گی۔

جمعرات کو کرد سیاست دانوں نے عبداللہ اوجلان سے جیل میں ملاقات کے دوران اُن پر زور دیا تھا کہ وہ ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر کے پارٹی بھی تحلیل کر دیں۔

'پی کے کے' کی ایگزیکٹو کمیٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اوجلان کے اعلان سے کردستان اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک تاریخی عمل کا آغاز ہو گا۔

پی کے کے کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ ترکیہ، شام، عراق اور ایران کے کرد اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد ریاست کا قیام عمل میں آنا چاہیے۔

پی کے کے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ گروپ کے سربراہ کے اعلان کے بعد اب جمہوری اور قانونی ذرائع سے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے گا۔

ترکیہ اور بعض مغربی ممالک 'پی کے کے' کو دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں۔ ماضی میں بھی شورش کے خاتمے کے لیے کوششیں ہوتی رہی ہیں۔

تاحال یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ترکیہ کی حکومت عبداللہ اوجلان کو کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ تاہم وزیرِ انصاف یلماز تنک نے جمعے کو ' سی این این ترک' کو بتایا تھا کہ عام معافی، گھر میں نظر بندی یا دیگر آپشنز پر بات نہیں کی جا رہی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق صدر ایردوان عرصۂ دراز سے اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے کوشاں تھے، تاکہ وہ اپنی توجہ ملکی سیاست پر مرکوز کرتے ہوئے اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر سکیں۔

ماہرین کے مطابق شورش کے خاتمے سے تیل کی دولت سے مالا مال شمالی عراق میں امن آئے گا جب کہ شمالی شام کے علاقوں میں شام کی نئی حکومت کا کنٹرول بھی مضبوط ہو گا۔

اس رپورٹ کے لیے بعض معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔