ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں اسلامی ممالک کی 'کوالالمپور سمٹ' جاری ہے۔ کانفرنس میں اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) کے 57 میں سے 20 ملکوں کے نمائندہ وفود شریک ہیں۔
کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ "ہم یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں تاکہ اسلامو فوبیا، مسلمان ملکوں کے تنازعات، فرقہ ورانہ اور ںسلی بنیادوں پر ہونے والے جھگڑوں کا سدباب کر سکیں۔"
اُن کا کہنا تھا کہ "ہم فلسطین کا تنازع حل نہیں کرا سکے، ہم اپنے وسائل کا استحصال نہیں روک سکے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکے کہ فرقہ واریت کے نام پر مسلمان ممالک کی تقسیم روکو۔"
ایردوان نے او آئی سی کا نام لیے بغیر کہا کہ "مسلم امہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو پلیٹ فارمز اسلامی ممالک کو جوڑتے ہیں وہ اپنے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کرا سکے۔"
ترکی کے صدر ایردوان اور ملائیشیا کے وزیرِ اعظم مہاتیر محمد او آئی سی کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے اور اس کے غیر فعال ہونے سے متعلق وقتاً فوقتاً تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
مہاتیر محمد نے اس تاثر کو رد کیا کہ کوالا لمپور سمٹ کا مقصد امتیاز برتنا یا کسی ملک کو تنہا کرنا ہے۔
کانفرنس کی میزبانی کرنے والے ملک کے وزیرِ اعظم نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس کا مقصد مسلم اُمہ کو درپیش عالمی چیلنجز، اسلامی تہذیب کے زوال، مسلم ممالک میں طرز حکمرانی، اسلاموفوبیا اور مغرب میں اسلام سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کا حل تلاش کرنا ہے۔
مہاتیر محمد نے کہا کہ اگر کانفرنس کے شرکا قابل عمل سفارشات مرتب کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اسے اسلامی ملکوں کے بڑے پلیٹ فارمز پر بھی زیرِ غور لایا جائے گا۔
کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے علاوہ ایران کے صدر حسن روحانی اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے بھی شرکت کی۔
خیال رہے کہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ملائیشیا کے وزیرِ اعظم نے اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے تمام 57 رکن ممالک کو شرکت کی دعوت دی تھی۔ تاہم، سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز سمیت متعدد ملکوں نے اس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
ماہرین سعودی عرب کے انکار کو مشرقِ وسطیٰ میں اسلامی ممالک کے دیرینہ اختلافات کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔
SEE ALSO: عمران خان کا ملائیشیا نہ جانا پاکستان کے لیے نقصان دے یا سود مند؟تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات تو عرصہ دراز سے کشیدہ رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ عرصے میں ترکی اور قطر کے ساتھ بھی اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے سرخیل سمجھے جانے والے سعودی عرب کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔
بعض ماہرین کا یہ خیال ہے کہ سعودی عرب ملائیشیا کے وزیرِ اعظم کی جانب سے بلائی گئی اس کانفرنس کو او آئی سی کے متوازی ایک نئی تنظیم بنانے کی کوشش سمجھتا ہے۔
کانفرنس سے چند روز قبل پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔