|
پشاور، اسلام آباد — خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم کے ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر حملے کے بعد صوبائی حکومت نے امن معاہدے پر دستخط کرنے والے عمائدین سے باز پرس اور ملوث ملزمان کے ساتھ ساتھ ان کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
صوبائی حکومت نے اتوار کی شب جاری اعلامیے جاری کیا جس میں کرم کے صورتِ حال پر اعلیٰ سطح اجلاس میں فیصلوں کو اجاگر کیا گیا کہ چار جنوری کے حملے میں ملوث ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے گا اور ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت کاروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے معاہدے پر دستخط کرنے والے قبائلی عمائدین کے ذریعے ملزمان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ بصورت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے کارروائیاں شروع کریں گے۔
کرم کی پولیس نے چار جنوری کو ڈپٹی کمشنر پر ہونے والی فائرنگ کا مقدمہ درج کیا ہے۔ حکام نے اب تک دو ملزمان کے گرفتار ہونے کی تصدیق کی ہے۔ حملے میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود سمیت سات افراد زخمی ہوئے تھے۔
اُدھر کرم کے مرکزی شہر پاڑہ چنار میں اہم شاہراہ کی بندش کے خلاف دو ہفتوں سے جاری احتجاجی دھرنا اتوار کی شام ختم کر دیا گیا ہے۔ تاہم شہر اور نواحی علاقوں کو سامان کی رسد کے لیے 80 ٹرک ابھی تک ضلع ہنگو کے شہر تھل میں رکے ہوئے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ سامان رسد پاڑہ چنار تک لے جانے کے لیے کوشش کی جاری ہے۔ قافلے میں شامل گاڑیوں، ڈرائیوروں اور دیگر افراد کا تحفظ یقینی ہونے پر قافلہ روانہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ زخمی ہونے والے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کو تبدیل کرکے ان کے جگہ پر اشفاق خان کو کرم کا ڈپٹی کمشنر تعینات کر دیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت نے ضلع کرم میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔
مبصرین مقامی آبادی کے تحفظات کو دور کیے بغیر پاڑہ چنار کے لیے امدادی قافلہ بھیجنے کے حکومتی اقدام کو قبل از وقت اور غیر محتاط قرار دے رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار داؤد خٹک کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کرم کے علاقے بگن میں سینکڑوں افراد شاہراہ پر سراپا احتجاج تھے اور ان کے تحفظات کو دور کیے بغیر حکومت نے خور و نوش کا قافلہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تو اس کے نتیجے میں سنگین مسائل پیدا ہونے کا امکان تھا۔
ان کے مطابق بگن کے عمائدین نے کوہاٹ گرینڈ جرگے کے معاہدے پر دستخط اس لیے نہیں کیے تھے کیوں کہ جرگے کے معاہدے میں 21 نومبر کے حملے کے بعد بگن گاؤں میں جلاؤ گھیراؤ اور ہلاکتوں کو نظر انداز کیا گیا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مقامی افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
SEE ALSO: کرم میں کشیدگی برقرار؛ ضلعے میں دفعہ 144 نافذ، ڈپٹی کمشنر تبدیلوائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے داؤد خٹک نے مزید کہا کہ حکومت کو سب سے پہلے علاقے کے عمائدین کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے تھے۔ غم زدہ خاندانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے معاوضے اور امداد کا اعلان کرنا چاہیے تھا اور اس کے بعد وہاں امدادی سامان کا قافلہ گزارنے کے لیے اقدامات کیے جاتے۔
ان کے مطابق حکومت نے یہ تمام اقدامات کیے بغیر اپنی من مانی اور پوائنٹ اسکورنگ کو ترجیح دی۔
تاہم صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ حکومت نے جلدی میں فیصلہ نہیں کیا بلکہ تمام ضروری اقدامات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے امدادی سامان کی ترسیل کو ترجیح دی۔
بیرسٹر سیف کے مطابق امن معاہدہ برقرار ہے اور معاہدے کی تمام شقوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ ضلع کرم میں شاہراہوں پر سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے اور علاقہ مشران کو حملے میں ملوث مجرمان کو جلد از جلد حوالے کرنے کا کہا گیا ہے۔
داؤد خٹک کہتے ہیں کہ 21 نومبر اور اس کے بعد کرم میں ہونے والے واقعات میں اب تک کسی بھی شر پسند کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ کہیں سے بھی کسی گرفتاری کی خبر تک نہیں آئی۔ کرم کے علاقے میں ہونے والے حالیہ تشدد کے باوجود حکومتی اداروں نے کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا جس سے عوام میں بے چینی اور غصہ بڑھ رہا ہے۔
SEE ALSO: امن معاہدے کے باوجود ضلع کرم میں فائرنگ، ڈپٹی کمشنر سمیت چار افراد زخمیان کا مزید کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر صوبائی اور وفاقی حکومت نے کرم میں ہونے والے واقعات کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی حالاں کہ ان واقعات میں اب تک 130 سے زائد افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد جب حالات مزید کشیدہ ہوئے تو حکومت نے بجائے اس بات پر توجہ دینے کے کہ ان واقعات کی روک تھام کی جائے کرم کے مسئلے کو سیاست کا حصہ بنایا۔ اس سے عوام کے جذبات مزید مجروح ہوئے ہیں۔
سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس ارشاد حسین نے بگن میں ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر ہونے والے حملے کو انٹیلی جینس کی ناکامی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس نوعیت کے حملے سے پہلے مناسب انٹیلی جینس معلومات کا فقدان تھا جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس حملے کے بعد اپنی انٹیلی جینس اور سیکیورٹی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان جہاد کے بعد سے ضلع کرم میں اسلحے کی بھر مار ہے اور علاقے میں شر پسندوں کے ٹھکانے اور نیٹ ورک کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 21 نومبر کے واقعے کے بعد لوئر کرم میں شر پسندوں کی نقل و حرکت واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی ایسے حالات میں جب تک شرپسندوں کے ٹھکانوں اور نیٹ ورکس کا خاتمہ نہ ہو بگن جیسے حساس علاقے سے امدادی سامان کے قافلے کو گزارنا دانش مندانہ فیصلہ نہیں تھا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومتی فیصلہ عجلت میں کیا گیا تھا جس کے بعد علاقائی صورتِ حال مزید سنگین ہو گئی ہے۔
SEE ALSO: کرم میں نجی بنکرز مسمار کرنے اور غیر قانونی اسلحہ واپس لینے کا فیصلہواضح رہے کہ ضلع کرم عرصہ دراز سے زمینی تنازعات اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار رہا ہے جس کے نتیجے میں درجنوں افراد کی جانیں گئیں اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے۔
ملک حکمت خان حکمت یار بگن کے رہائشی اور کوہاٹ گرینڈ جرگے کے عمائدین میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ خود بھی یہ نہیں جانتے کہ ہفتے کے روز بگن میں پیش آنے والے واقعے میں ڈپٹی کمشنر کی گاڑی پر حملہ کس نے کیا۔
ان کے مطابق بگن کی عوام اور عمائدین حکومت کے ساتھ مل کر حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اگرچہ کوہاٹ امن معاہدے پر تاحال دستخط نہیں کیے۔ لیکن معاہدے میں صرف روڈ کھولنے کی سفارشات نہیں تھیں۔ اس میں غم زدہ خاندانوں، گھروں اور دکانوں کے جلاؤ گھیراؤ میں ملوث افراد کی نشاندہی، مورچوں اور بنکروں کا خاتمہ اور اسلحے کو ضبط کرنے کا بھی ذکر تھا۔ بدقسمتی سے ان تمام سفارشات کو نظرِ انداز کرتے ہوئے صرف ٹل پاڑا چنار روڈ کے کھولنے کو ترجیح دی گئی۔
ان کے بقول امن معاہدوں میں ساری ترجیح روڈ کے کھولنے پر ہی مرکوز کی جاتی ہے اور اس مرتبہ بھی یہی حکمتِ عملی اپنائی جا رہی ہے جو کہ مری معاہدے میں اپنائی گئی۔ لیکن حقیقی تقاضا یہی ہے کہ جب پہلے کے معاہدے لوگوں کے تحفظات دور کیے بغیر کامیاب نہ ہو سکتے تو کوہاٹ گرینڈ جرگہ امن معاہدہ کیسے کامیاب ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے اگرچہ دفعہ 144 کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن بگن بازار میں لوگوں کی گہما گہمی بدستور برقرار ہے جس سے علاقے میں امن و سکون کی بحالی کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔