|
اسرائیل کے حملوں میں لبنان کی طاقت ور عسکری تنظیم حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت کی ہلاکتوں کے بعد مبصرین یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ ان اموات سے اس کا تنظیمی ڈھانچہ بری طرح کمزور ہوا ہے۔
اسرائیل نے 27 ستمبر کو ایک حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو ایک فضائی حملے میں ہلاک کردیا تھا۔ اس سے ایک روز قبل ہی اسرائیل نے حزب اللہ کےمضبوط گڑھ سمجھے جانے والے جنوبی لبنان میں اپنے حملوں کا آغاز کیا تھا۔
منگل کو اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملے میں نصراللہ کے ممکنہ جانشین ہاشم صفی الدین بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ تاہم حزب اللہ نے تاحال اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
اسرائیل کے حکام کے مطابق حالیہ کشیدگی کے دوران اسرائیلی حملوں میں اب تک حزب اللہ کے 25 سینئر کمانڈر مارے گئے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم فاؤنڈیشن فار ڈیفینس آف ڈیموکریسیز سے وابستہ محقق حسین عبد الحسین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کی کارکردگی ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ قیادت موجود نہیں۔ ان کے بقول بظاہر اس کا کوئی قائد و رہبر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی لبنان میں حزب اللہ اس وقت بھی فعال نظر آتی ہے۔ لیکن یہ صرف حزب اللہ کے تنظیمی ڈھانچے کی وجہ سے ممکن ہے جو اس طرح بنایا گیا ہے کہ اگر ایک حصے کو نقصان پہنچتا ہے تو دوسرا آزادانہ انداز میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے۔
حسین عبد الحسین کے مطابق ’’آپریشنل سطح تک تو یہ ٹھیک ہے لیکن اسٹریٹجک سطح پر یہ بہتر نہیں ہے۔‘‘
منگل کو ٹی وی پر نشر ہونے والے تقریر میں حزب اللہ کے نائب سربراہ نعیم قاسم کا کہنا تھا کہ تنظیم کا کمانڈ اینڈر کنٹرول اور تنظیمی ڈھانچہ سلامت ہے اور اس کی جنگی صلاحیتیں بھی ’برقرار‘ ہیں۔
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم نے حالیہ نقصان پر قابو پالیا ہے اور تمام عہدوں پر متبادل تقرریاں کردی گئی ہں۔
نعیم قاسم نے کہا کہ اسرائیل پر حزب اللہ کے راکٹ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیڈر شپ اور میدان میں موجود یونٹس کے درمیان رابطے برقرار ہیں۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کو حزب اللہ نے اسرائیل پر 100 سے زائد راکٹ حملے کیے تھے جن میں ساحلی شہر حیفا سمیت شمالی اسرائیل پر بھی کئی راکٹ مارے گئے۔ اس حملے سے حیفا میں کم از کم پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔
تجزیہ کار عبدالحسین نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پر راکٹ حملوں کو عسکری صلاحیتوں کا ثبوت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حزب اللہ اور حماس کی ان کارروائیوں کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ انہیں شکست نہیں ہوئی۔
SEE ALSO: اسرائیل کے لبنان میں حملے؛ حزب اللہ کتنی کمزور ہوئی ہے؟انہوں نے کہا کہ حماس ہر کچھ ہفتے بعد ایک یا اس سے زائد راکٹ حملے کرکے اسرائیل کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حماس کا کنٹرول اینڈ کمانڈ اور عسکری ڈھانچہ سلامت ہے۔ یہی بات حزب اللہ پر بھی پوری اترتی ہے۔
عبد الحسین کے مطابق حزب اللہ میں ایک مرکزی قیادت ہے تاہم جنگ کے وقت اگر قیادت سے رابطہ نہ ہو تو اس کے راکٹ لانچر یونٹس کو آزادانہ طور پر اپنی کارروائیاں کرنے کی اجازت ہے۔
ایران کی مداخلت
بیروت سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار اور نیوز ویب سائٹ ’جنوبیہ‘ کے ایڈیٹر ان چیف علی الامین کا کہنا ہے کہ ایران حزب اللہ کے عسکری اور سیاسی ڈھانچے کو برقرار رکھتا ہے۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایران کے خیال میں اب حزب اللہ تنہا اسرائیل سے لڑنے کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے پاسدارانِ انقلاب کے حکام پہلے ہی یہاں پہنچ چکے تھے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد ایران کے کئی یونٹس حزب اللہ میں قیادت کے خلا کو پورا کرنے اور ڈھانچے کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے یہاں پہنچے ہیں۔
علی الامین کے مطابق نصر اللہ جب زندہ تھے تب بھی حزب اللہ اپنے بل پر سب نہیں کرتی تھی۔ نصر اللہ کی غیر موجودگی نے حزب اللہ میں مزید کنفیوژن پیدا کردی ہے اور ایران چاہتا ہے کہ وہ کمانڈ کو منظم کرکے غیر یقینی کی یہ صورتِ حال ختم کرے۔
حزب اللہ کے ڈپنی سیکریٹرجنرل نے منگل کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ تنظیم کی نئی قیادت کا انتخاب ہوجائے تاہم انہوں نے کسی تاریخ یا ٹائم فریم کا اعلان نہیں کیا ہے۔
تاہم حالیہ دنوں میں اسرائیلی حملوں سے جتنی بڑی تعداد میں حزب اللہ کے کمانڈرز ہلاک ہوئے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قیادت کا انتخاب جلد ہوتے دکھائی نہیں دیتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کار علی الامین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ میں کوئی ایسی دوسری شخصیت نہیں جس کا موازنہ حسن نصر اللہ کے ساتھ کیا جاسکتا ہو۔
ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ کے نئے سیکریٹری جنرل کا تقرر بہت جلد ہوتا ممکن نظر نہیں آتا۔
علی الامین کے مطابق حزب اللہ اس جنگ میں باقی رہتی ہے اور کسی معاہدے پر پہنچتی ہے تبھی اگلے مرحلے میں اپنے سویلین لیڈر کا تقرر کرسکتی ہے۔