افغان فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ غزنی میں سیکیورٹی بیس پر خود کش کار بم حملے کے ماسٹر مائنڈ پاکستانی نژاد طالبان عسکریت پسند کو ایک کارروائی میں ہلاک کر دیا ہے۔
صوبہ غزنی میں اتوار کو پبلک پروٹیکشن فورس کے کمپاؤنڈ پر ہونے والے کار بم حملے میں 30 اہلکار ہلاک اور 24 زخمی ہوئے تھے۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق حملے کے ماسٹر مائنڈ حمزہ وزیرستانی کو صوبہ غزنی میں ایک فضائی کارروائی میں نشانہ بنایا ہے۔
افغان وزارتِ دفاع نے بھی ایک بیان میں بتایا ہے کہ حمزہ وزیرستانی کو اس کے دیگر سات ساتھیوں کے ساتھ نشانہ بنایا گیا ۔
وزارتِ دفاع کے ترجمان فواد امن کے مطابق طالبان عسکریت پسند حمزہ وزیرستانی کا تعلق پاکستان کے سرحدی علاقے وزیرستان سے تھا۔
اتوار کو سیکیورٹی اہلکاروں پر ہونے والا حملہ حالیہ مہینوں میں فورسز کو نشانہ بنائے جانے کی کارروائیوں میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز واقعہ تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک جانب افغان حکام اور طالبان کے درمیان قطر میں بین الافغان مذاکرات جاری ہیں۔ تو دوسری جانب افغانستان میں پر تشدد کارروائیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
غزنی میں سیکیورٹی کمپاؤنڈ پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کسی بھی عسکریت پسند گروہ نے قبول نہیں کی تھی۔ طالبان بھی اکثر اُن ہلاکت خیز حملوں پر کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر نہیں کرتے جن کا ذمہ دار انہیں قرار دیا جا رہا ہو۔
امریکہ اور طالبان نے رواں برس فروری کے آخر میں امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت غیر ملکی افواج کو 2021 کے وسط سے افغانستان سے واپس جانا ہے۔
مذکورہ معاہدے کے بعد کئی ماہ تک افغان حکومت اور طالبان میں قیدیوں کی رہائی پر تنازع رہا۔ بعد ازاں قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہوا جس کے اگلے مرحلے میں فریقین کے درمیان بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
غزنی کے طبی حکام کا کہنا تھا کہ اتوار کو ہونے والے حملے میں 30 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ البتہ وزارتِ دفاع کا دعویٰ تھا کہ حملے میں 10 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ عمومی طور پر افغان حکام پر ہلاکتیں کم ظاہر کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بھی پر تشدد کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں تعلیمی اداروں اور دارالحکومت پر ایک ساتھ متعدد راکٹوں کے حملے میں 50 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
کابل میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔ البتہ افغان حکام ان حملوں کا ذمہ دار طالبان کو ٹھیراتے رہے ہیں۔
دوسری جانب طالبان ان حملوں میں کسی بھی طرح ملوث ہونے کی تردید کر چکے ہیں۔