سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اثاثہ جات کیس میں سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس معاملات دیکھنا فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا کام ہے تو پھر اثاثہ جات ریکوری یونٹ (آے آر یو) لوگوں کی معلومات کیوں جمع کر رہا ہے؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اُصولی طور پر اے آر یو کو یہ مقدمہ ایف بی آر یا قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھجوانا چاہیے تھا۔
جمعرات کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے اپنے اہل خانہ کے نام بیرونِ ملک جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہ کر کے ججز کے طے شدہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی۔
سماعت کے دوران جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا کہ اس معاملے میں منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔ سال 2013 میں لندن فلیٹس کی ٹرانزیکشن ہوئیں اور اس وقت کے قانون کے تحت یہ منی لانڈرنگ نہیں تھی۔
اُنہوں نے کہا کہ اس ساری کارروائی کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی سوالات سے بہت معاونت ملی۔ دو قانونی نکات پر دلائل دوں گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے طریقہ کار پر قانونی سوال کیے ہیں۔ سوال ریفرنس کی مبینہ بدنیتی پر ہیں کہ شکایت صدرِ مملکت کو بھیجنے کے بجائے اے آر یو یونٹ بھیجنے کو ترجیح کیوں دی گئی؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے۔ صدرِ مملکت ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ وہ آرٹیکل 48 کے تحت ریفرنس نامکمل ہونے پر واپس بھیج سکتے ہیں۔
فروغ نسیم نے بتایا کہ بیرونِ ممالک سے اثاثے لانے کا معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا، کابینہ نے غیر ملکی اثاثے واپس لانے کے لیے ٹاسک فورس بنائی جس کے نتیجے میں اے آر یو کا قیام عمل میں آیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ 28 اگست کو شہزاد اکبر معاون خصوصی بنے، اسی روز ٹاسک فورس کے قواعد و ضوابط بھی بن گئے، ایک ہی تاریخ میں سارا کام کیسے ہو گیا؟
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ شہزاد اکبر کو اثاثہ جات کے معاملے پر مکمل عبور حاصل ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ اے آر یو کابینہ ڈویژن کے ماتحت ہے، اس کے قیام میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوا۔ اس کا کام مختلف ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اے آر یو کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کا فیصلہ کرتا۔ کس کے دماغ میں بات آئی کہ یہ کیس جج کے مس کنڈکٹ کا بنتا ہے؟ حکومتِ پاکستان کی جانب سے کس نے کہا کہ یہ معاملہ مس کنڈکٹ کا ہے؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے فروغ نسیم سے سوال کیا کہ یہ بتا دیں کہ یہ معاملہ ٹیکس اتھارٹی کو بھیجنے کے بجائے ریفرنس بنانے کی تجویز کس نے دی؟ یہ روشن آئیڈیا کس نے دیا کہ معاملہ نیب اور ایف بی آر کو بھیجنے کے بجائے ریفرنس بنایا جائے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے جج کے مس کنڈکٹ کا تعین کیسے کر لیا؟ اُس حکومتی شخصیت کا نام بتائیں جس نے تعین کیا کہ جسٹس فائز عیسی مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے؟
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اس معاملے کے بہت سنجیدہ نتائج بھی ہوں گے۔ روزہ نہ رکھنا بھی غلط کام ہے کیا اس پر بھی اے آر یو کارروائی کا کہہ سکتا ہے؟
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ایک سابق وزیر اطلاعات نے پریس کانفرنس میں ریفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جج صاحب نے کریز سے باہر نکل کر شاٹ لگائی تھی، لگتا ہے ریفرنس صرف کریز سے باہر نکل کر شاٹ لگانے پر بنا۔
سپریم کورٹ نے اے آر یو کی تشکیل پر بھی اعتراض اٹھائے اور کام کرنے کے طریقہ کار پر کہا کہ اے آر یو انکوائری کے لیے نجی ایجنسی کی خدمات کیسے حاصل کرسکتا ہے؟
عدالت نے سوال اُٹھایا کہ اگر یہ ادارہ کسی قانون کے بغیر بنا ہے تو کسی معاملے کی انکوائری کیسے کرسکتا ہے؟
عدالت نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ ریفرنس کی تیاری میں بدنیتی ہوئی یا نہیں۔ ریفرنس میں جرم آپ نے کونسا بنایا ہے؟ ایسا جرم بتائیں جس سے جج پر اعتماد مجروح ہوا ہے، 10 ہزار روپے ٹیکس عدم ادائیگی پر ریفرنس نہیں بن جاتا۔
عدالت نے فروغ نسیم سے کیے گئے سوالات کے جواب طلب کیے اور کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ہے کیا؟
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرونِ ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہو چکی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جسے گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کر دیا تھا۔
بعد ازاں جسٹس فائز عیسیٰ نے عدالتِ عظمٰی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کردہ ریفرنس کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جس پر عدالت نے فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال اس بینچ کی سربراہی کر رہے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک اور بابر ستار نے دلائل مکمل کر لیے ہیں جن میں انہوں نے حکومتی ریفرنس کو بدنیتی قرار دیا ہے۔
اس ریفرنس میں اٹارنی جنرل انور منصور کے مستعفی ہونے کے بعد خالد جاوید کو اٹارنی جنرل بنایا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی فروری میں اس کیس کی سماعت کے دوران وفاق کی نمائندگی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔
اس کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی وزارت سے مستعفی ہوکر عدالت میں دلائل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔