رسائی کے لنکس

جسٹس فائز عیسی کیس: 'انکوائری کے لیے صدرِ مملکت کی اجازت درکار نہیں تھی'


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف اثاثہ جات سے متعلق صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کرا دیا ہے۔

دوران سماعت سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف درخواست پر بہت تیزی سے کارروائی کی گئی۔ شکایت کنندہ کو کیا معلومات غیب سے ملیں، اس ملک میں بہت سے کام غیب سے ہی ہوتے ہیں۔

عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں حکومت کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا جواب دینے کے بجائے آزاد عدلیہ کے پیچھے چھپنے کا سہارا لیا۔

بدھ کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے اپنے اہل خانہ کے نام بیرونِ ملک جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہ کر کے ججز کے طے شدہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (فائل فوٹو)
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (فائل فوٹو)

عدالت کا کہنا تھا کہ ہم نے جائزہ لینا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے ان کے زیرِ کفالت ہیں یا نہیں۔ عدالت نے شکایت کرنے والے صحافی کی ساکھ پر بھی سوال اٹھا دیا۔

عدالت نے کہا کہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام کی اسپیلنگ نہیں آتے جب نام اور اسپیلنگ درست نہیں ہوں گے تو ویب سائٹ پر سرچ کیسے ہو سکتا ہے۔

عدالت نے گزشتہ روز حکومتی وکیل فروغ نسیم سے سوالات کیے تھے جن پر آج انہوں نے جواب دیے۔ سپریم کورٹ نے حکومتِ پاکستان کے 'اثاثہ جات ریکوری یونٹ' (اے آر یو) کی قانونی حیثیت پر بھی سوالات اُٹھائے تھے۔

سماعت شروع ہوئی تو فروغ نسیم نے کہا کہ 10 اپریل 2019 کو صحافی وحید ڈوگر نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو شکایت بھیجی۔ آٹھ مئی کو وحید ڈوگر نے لندن پراپرٹی کے حوالے سے اے آر یو کو خط لکھا۔

وحید ڈوگر نے خط میں لندن پراپرٹیز کی قیمت خرید، مارکیٹ ویلیو کے بارے میں بتایا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لندن پراپرٹیز کی معلومات کس طرح سے انٹرنیٹ پر شائع کی گئیں۔

وحید ڈوگر کی شکایت پر انکوائری کی تحقیقات کی اجازت کس نے دی۔ اے آر یو نے شکایت پر انکوائری کا آغاز کیسے کر دیا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ 1988 کے بعد برطانیہ میں ہر پراپرٹی کا ریکارڈ اوپن ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ منی ٹریل کی بات کرتے ہیں بظاہر یہ ٹیکس کی ادائیگی کا معاملہ ہے۔ اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا، الزام ہے کہ لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی گئی۔

فروغ نسیم نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ نے بھی لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کیں۔ قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2014 میں اپنی آمدن صرف چند ہزار روپے ظاہر کی۔

حکومتی وکیل نے دلائل دیے کہ 2011 اور 2013 میں معزز جج کے بچے تعلیم سے فارغ ہوئے تو اتنی مہنگی جائیداد کیسے خرید سکتے ہیں۔ 2011 اور 2013 میں بچوں کی عمریں بھی زیادہ نہیں تھیں۔ بلاشبہ قاضی خاندان امیر ہے لیکن ریکارڈ زرعی زمین پر زرعی ٹیکس ظاہر نہیں کرتا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان (فائل فوٹو)
سپریم کورٹ آف پاکستان (فائل فوٹو)

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ایف بی آر نے اس معاملے پر کاروائی کیوں نہیں کی جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر نے خوف کی وجہ سے ٹیکس کے معاملے پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اگر ایف بی آر حکام کارروائی نہیں کرتے تو کیا صدرِ مملکت قانونی کارروائی کو بائی پاس کر سکتے ہیں۔ جسٹس باقر نے کہا کہ یہ ذہن میں رکھیں ہر ایک کو اپنا موقف پیش کرنے کا حق ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ اہلیہ اور بچے زیرِ کفالت تھے یا نہیں تھے۔ اس سارے میں کسی چیز کو کٹ شارٹ نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اُٹھایا کہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام کا پتا کیسے چلا؟ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسی کے نام کے اسپیلنگ نہیں آتے۔ وحید ڈوگر کس میڈیا کے لیے کام کر رہا ہے، اس کا ماضی کیا ہے؟

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے، قانون دکھا دیں جس کے تحت جج کو اپنی اور خاندان کے افراد کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمیں جج کی بددیانتی یا کرپشن دکھائیں۔ ایسا کچھ بتائیں جس سے جرم سامنے آئے، جج شیشے کے گھر میں لیکن جوابدہ ہے۔

سپریم کورٹ نے وفاق کے وکیل فروغ نسیم سے اس کیس میں تحریری دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی ہے۔

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ یہ کیس ججز کو بلیک میل کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے جس میں حکومت کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اُن کے بقول اس کیس میں حکومت نے کسی کے کہنے پر کیس قائم کیا اور انور منصور، فروغ نسیم اور شہزاد اکبر کا خیال تھا کہ اس طرح سے کام چل جائے گا اور جج کے خلاف کارروائی کرلی جائے گی۔

لیکن ان کے تمام ثبوت عدالت میں بوگس نکلے، پاکستان بھر کے وکلا اس معاملہ میں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

XS
SM
MD
LG