سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کو فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرموں کو رہا کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ پشاور ہائی کورٹ مقدمات کی میرٹ پر سماعت جاری رکھے لیکن ضمانت کے عبوری احکامات جاری نہ کیے جائیں۔
جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرموں کی پشاور ہائی کورٹ سے ضمانتوں کے خلاف وفاق کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید کا کہنا تھا کہ یہ غیر معمولی مقدمات ہیں ان میں ضمانتوں سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس میں متعلقہ افراد کی گرفتاریوں کے لیے کئی افراد نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔
جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ پشاور ہائی کورٹ کو ضمانت دینے سے روکتی ہے تو غلط روایت ہو گی۔ ایسے تو ہر آدمی ہائی کورٹ کے خلاف سپریم کورٹ آ جائے گا۔
عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کر کے سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کر دی۔
پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 71 ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنا پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس پر وفاق نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ اور ان ملزمان کی رہائی پر فی الحال حکم امتناع ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ 2004 سے 2015 کے دوران دہشت گردی میں ملوث 71 ملزمان کے خلاف مقدمات قائم ہیں۔ یہ مقدمات الگ الگ الزامات کے تحت درج کیے گئے۔
لیکن پشاور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے طے شدہ اصولوں پر عمل نہیں کیا۔ زیادہ تر افراد کو انکوائری کے دوران ہی بری کر دیا گیا جبکہ ٹرائل کے بعد 5 فی صد ملزمان بری ہو گئے۔
دوران سماعت جسٹس مشیر عالم نے حکم دیا تھا کہ تمام مجرمان کے نام، جرائم کی نوعیت، درخواست نمبر، ثبوت سمیت شریک ملزمان اور رہا ہونے والوں کی تفصیل عدالت کو پیش کریں۔
مجرموں کی رہائی کا یہ فیصلہ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے سنایا تھا جو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے رکن بھی تھے۔
انہوں نے مذکورہ کیس میں پرویز مشرف کو موت کی سزا سنانے کے ساتھ ساتھ ان کے بیرون ملک انتقال کی صورت میں ان کی لاش ملک میں لا کر تین دن تک پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک میں لٹکانے کا حکم دیا تھا۔