’کریمنل جسٹس سسٹم‘ میں بہتری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کہا ہے کہ ’’دہشت گردی کےخاتمےکے لیےفوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ اور یہ قیام پارلیمنٹ کی منظوری سے ہوا‘‘
پاک فوج کے ترجمان، میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ملٹری کورٹ کا قیام فوج کی خواہش نہیں قومی ضرورت ہے؛ اور یہ کہ اگر پارلیمنٹ نہیں چاہےگی تو فوجی عدالتوں میں توسیع نہیں ہوگی۔
فوج کے شعبہٴ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ نے نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ کے اینکر، کامران خان سے بات کرتے ہوئے، کہا ہے کہ ’’کریمنل جوڈیشل سسٹم دہشت گردی کے مقدمات کے لیے موزوں نہیں تھا‘‘۔
’کریمنل جسٹس سسٹم‘ میں بہتری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی کےخاتمےکے لیےفوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ اور یہ قیام پارلیمنٹ کی منظوری سے ہوا‘‘۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’’ماضی میں ان کا قیام اور دو سال کی توسیع سیاسی اتفاق رائے سے ہوئی۔ اب اگر یہ فیصلہ دوبارہ لیا جاتا ہے تو یہ پارلیمنٹ کی خواہش پر ہی ہوگا۔ اگر پارلیمنٹ نہیں چاہے گی تو یہ عدالتیں ختم ہو جائیں گی‘‘۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کا تعلق لاپتا افراد یا ایسے دیگر معاملات سے نہیں۔ چار سال میں717 مقدمات فوجی عدالتوں میں آئے، اور اسی عرصے میں 646 مقدمات نمٹائے گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’’یہ کیسز ہمارے پاس براہ راست نہیں آتے، بلکہ ’ایپکس کمیٹیوں‘ کے بعد صوبائی حکومت اور پھر وزیر اعظم کی منظوری کے بعد یہ فوجی عدالتوں میں آتے ہیں۔ پھر ہمارا انٹرنل پروسیس ہے جس کے بعد یہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔ یہ خاصا شفاف نظام ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کسی مجرم کو سزائےموت کی توثیق کریں تو مجرم فوجی عدالتوں میں اپیل کرتا ہے۔ فوجی عدالتوں نے دہشتگردوں اور انکے ہینڈلر پر خوف طاری کیا اور انکی وجہ سے دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتیں آرمی کے لئے ایک اضافی کام ہے، اور ملک کی سول عدالتوں کا نظام بہت سست ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا فوجداری نظام مؤثر ہوگیا ہے؟
انھوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں بھی ملزمان کو صفائی کا موقع ملتا ہے۔ اچھا ہے کہ سویلین کورٹس سزاؤں کو دیکھ لیتی ہیں۔ فوجی عدالتیں قائم رکھنی ہیں تو سیاسی اتفاق رائے کرنا ہوگا۔
انھہوں نے کہا کہ ’’ملٹری کورٹ کا قیام فوج کی خواہش نہیں قومی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ نہیں چاہےگی تو فوجی عدالتوں میں توسیع نہیں ہوگی۔ ہم وہ کریں گے جو پارلیمنٹ ہمیں بتائےگی‘‘۔
پاک فوج کے ترجمان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ملک کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں کی توسیع میں حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات کے روز پیپلز پارٹی نے کراچی میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی میں کمی آئی ہے۔ اب فوجی عدالتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ فوجی عدالتوں کی حمایت ہوگی نہ اٹھارویں ترمیم پر کوئی سمجھوتہ۔ اگر ملک و جمہوریت بچانی ہے تو ہمیں بڑے اور سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے رانا ثنااللہ نے بھی اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت کے اندر بھی دونوں آرا موجود ہیں کہ ان عدالتوں میں توسیع ہونی چاہیے یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردی میں 85 سے 90 فیصد کمی ہوگئی ہے تو دیکھنا ہوگا کہ کیا فوجی عدالتوں کی مزید ضرورت باقی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام ف کے مولانا فضل الرحمٰن بھی فوجی عدالتوں کی توسیع کی مخالفت کر چکے ہیں۔
فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان باقاعدہ مذاکرات پیر سے شروع ہوں گے۔ اپوزیشن نے مذاکرات کیلئے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔