|
اسلام آباد -- سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہونے والے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں سپریم کورٹ میں چھ ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی گئی ہے جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ کا عارضی جج بنا دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں آٹھ نئے ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں ملک کی پانچ ہائی کورٹس سے پانچ، پانچ سینئر ججز کے ناموں پر غور کیا گیا ۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس عامر فاروق کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری دے دی گئی۔ ان کے علاوہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ شفیع صدیقی کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی بھی منظوری دی گئی۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ کو سپریم کورٹ جج بنانے کی منظوری دی گئی جب کہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اشتیاق ابراہیم کو سپریم کورٹ کو بھی جج بنانے کی منظوری دی گئی۔
جوڈیشل کمیشن نے سندھ ہائی کورٹ کے جج صلاح الدین پنہور کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری دی۔ ان کے ساتھ پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس شکیل احمد کی بھی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ ججز تعینات کرنے کا معاملہ مؤخر کردیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ کا عارضی جج تعیناتی کی منظوری دی گئی۔
ان کی تقرری ایک سال کے لیے کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں ٹیکس مقدمات کے بڑھتے بوجھ کی وجہ سے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی تقرری عمل میں لائی گئی ہے۔
دو سینئر ججز اور پی ٹی آئی کا اجلاس کا بائیکاٹ
سپریم کورٹ کے سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ ان کے علاوہ بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر نے بھی اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ ممبر جوڈیشل کمیشن اور پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے اتوار کو چیف جسٹس کو خط میں پیر کو ہونے والا اجلاس مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے درخواست کی تھی کہ ہم نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دی ہے جب تک اس پر سماعت مکمل نہ ہو اجلاس ملتوی کیا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ تھا کہ اس معاملے کے حل ہونے تک کمیشن کی کارروائی کو مؤخر کیا جائے۔ لیکن یہ اجلاس مؤخر نہیں کیا گیا لہذا ہم اس میں شامل نہیں ہوئے۔
بیرسٹر گوہر نے اس بات کی تصدیق کی کہ اجلاس میں دو سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے بھی کمیشن اجلاس کی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
جسٹس منصور علی شاہ
کمیشن اجلاس کا اعلامیہ جاری
سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس کا اعلامیہ بھی جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا کہ اجلاس میں چھ ججز کی بطور سپریم کورٹ جج تقرری کی منظوری دی گئی۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہوا۔ کمیشن نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کو سپریم کورٹ جج بنانے کی منظوری بھی دی۔
اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ شفیع صدیقی، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اشتیاق ابراہیم کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری دی گئی۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین پنہور اور پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس شکیل احمد سپریم کورٹ جج کی منظوری دی گئی۔ اعلامیے کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ میں قائم مقام جج لگانے کی منظوری بھی دی گئی۔
وکلا کا احتجاج
ججز تعیناتی کے معاملے پر وکلا کی مختلف تنظیموں کے درمیان بھی اختلاف نظر آ رہا ہے اور 2007 میں وکلا تحریک چلانے والے منیراے ملک اور علی احمد کرد نے وکلا ایکشن کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے زیراہتمام کراچی سمیت مختلف علاقوں سے وکلا کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد پہنچی تھی جنہوں نے ان تعیناتیوں کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
اسلام آباد کے مقامی ہوٹل کے باہر سے شروع ہونے والے اس احتجاج کے لیے وکلا سرینا چوک کی طرف سے ریڈ زون میں داخل ہونے کے لیے پہنچے لیکن پولیس کی بھاری نفری اور کنٹینرز کی وجہ سے وہ داخل نہ ہوسکے جس کے بعد وکلا نے ڈی چوک پر آ کر دھرنا دے دیا۔
اس مظاہرے میں وکلا کی متاثرکن تعداد نہیں تھی اور اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے محض چند ارکان ہی اس مظاہرے میں شریک تھے اور تین گھنٹوں سے زائد وقت تک ڈی چوک پر دھرنا دینے کے بعد تمام وکلا پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔
ڈی چوک پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ریاست علی آزاد نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر سے وکلا پہنچ رہے ہیں اس لیے آج احتجاج ختم کرتے ہیں لیکن ججز تعیناتی پر دوبارہ احتجاج کریں گے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان کی تمام بار کونسلز نے مشترکہ اعلامیے میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے خلاف ہڑتال کو مسترد کردیا تھا۔ اس بارے میں تنظیموں کی طرف سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ قانونی برادری کے منتخب نمائندے عدلیہ کی آزادی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے موقع پر انتشاری لوگوں کی کال کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ وکلا کمیونٹی میں کچھ نام نہاد شرپسند عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لیے انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں لہذٰا منتخب نمائندے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کی مکمل حمایت کریں گے۔
سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلوں کے معاملہ پر تاحال وکلا تنظیموں اور ججز میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
بعض وکلا کا کہنا ہے کہ ان تعیناتیوں کے ذریعے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ تمام امور آئین اور قانون کے ذریعے طے کیے جا رہے ہیں اور آئین میں ججز کے تبادلوں کے بارے میں واضح طور پر اجازت دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے کا مقصد بڑی تعداد میں کیسز کی تعداد کو کم کرنا اور عام لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ تاہم اس بارے میں ایک سوال بہت اہم ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی مدد سے سپریم کورٹ کے جج بننے والے ججز کے سامنے اگر 26 ویں آئینی ترمیم کا کیس فکس کیا گیا تو ان ججز اور وکلا کا کیا ردِعمل ہوگا۔