اسرائیل کا غزہ میں جنگ بندی میں توسیع پر غور: کسی امن معاہدے کے کیا امکانات ہیں؟

اسرائیل کے ایک مرکزی علاقے ریشون لیتھون میں سوگوار قومی پرچموں کے ساتھ غزہ میں ہلاک ہونے والے ایک یرغمال اوڈیڈ لیف شیٹس کی باقیات کا انتظار کر رہے ہیں۔ 25 فروری 2025

  • غزہ میں جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ہفتے کو ختم ہو رہا ہے ۔
  • پہلے مرحلے میں 33 اسرائیلی یرغمالوں کے بدلے میں اسرائیل کودو ہزار فلسطینی قیدی رہا کرنے تھے۔
  • اب تک 29 اسرائیلی اور پانچ تھائی یرغمالوں کی واپسی ہو چکی ہے اور سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کیے جا چکے ہیں۔
  • جب کہ 600 فلسطینی قیدیوں کی رہائی اسرائیل نے مؤخر کر دی ہے۔۔
  • اسرائیل غزہ میں حماس کا کوئی کردار دیکھنا نہیں چاہتا۔ حماس کا کہنا ہے غزہ کے مستقبل پر اس سے مشورہ لیا جانا چاہیے۔
  • صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف بدھ کو اسرائیل کے دورے پر جانے والے ہیں۔

اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں جاری 42 روزہ جنگ بندی میں توسیع پر غور کر رہا ہے تاکہ وہ باقی ماندہ 63 یرغمالوں کو اپنے گھروں کو واپس لا سکے۔جب کہ غزہ کی پٹی کے مستقبل کے بارے میں معاہدے کو سردست ملتوی کر دیا گیا ہے۔

امریکہ کی حمایت اور مصری اور قطری ثالثوں کی مدد سے 19 جنوری کو شروع ہونے والی جنگ بندی کا پہلا مرحلہ اس ہفتے ختم ہو رہا ہے اور ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔

اسرائیل کی نائب وزیر خارجہ شیرن ہیسکل نے یروشلم میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم بہت محتاط ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ آیا دوسرے مرحلے پر بات چیت شروع کیے بغیر جنگ بندی میں توسیع کی جا سکتی ہے، جس کا تعلق جنگ کے مکمل خاتمے اور غزہ کی مستقبل کی حکمرانی جیسے مشکل معاملات سے ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ اس پر کوئی خاص معاہدہ نہیں ہوا تھا۔

نائب وزیر خارجہ نے مزید بتایا کہ ہم نے موجودہ جنگ بندی کو جاری رکھنے کا متبادل ختم نہیں کیا کیونکہ ہم اپنے یرغمالوں کو واپس لانا چاہتے ہیں اور انہیں بحفاظت واپس آنا ہے۔

SEE ALSO: یرغمالوں کی حوالگی کی تقاریب پراعترض؛ اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی مؤخر کر دی

عہدے داروں کا خیال ہے کہ اگر جمعے تک کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا تو یا تو لڑائی دوبارہ شروع ہو جائے گی یا پھر موجودہ صورت حال قائم رہے گی۔ لیکن یرغمال واپس نہیں آئیں گے اور اسرائیل غزہ کی امداد روک سکتا ہے۔

جنگ بندی کے عمل میں شامل دو عہدے داروں نے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے سلسلے میں کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے ایسی کوئی بات چیت نہیں کی ہے جس سے دونوں فریقوں کے درمیان خلیج کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ہیسکل کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ یہ غیر یقینی صورت حال چند دن تک جاری رہ سکتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر گہرائی سے بات کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید تقریباً دو ہزار فلسطینیوں قیدیوں کے بدلے میں 33 اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی اور غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کی بعض پوزیشنوں سے واپسی شامل ہے۔

SEE ALSO: غزہ کے لیے مصر کا منصوبہ کیا ہے: عرب رہنماؤں کا سعودی عرب میں اجلاس

اب تک 29 اسرائیلی یرغمالوں سمیت پانچ تھائی باشندے واپس آ چکے ہیں اور ان کے بدلے میں اسرائیل سینکڑوں فلسطینوں کو رہا کر چکا ہے۔ حماس نے چاریرغمالوں کی باقیات بھی واپس کی ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پر اسرائیلی فوج کے ایک حملے میں اپنے اغواکاروں سمیت مارے گئے تھےجس سے اسرائیل اس سے انکار کرتا ہے۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ غزہ کے مستقبل میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا اور اس نے فلسطینی اتھارٹی کے کردار کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ حماس کو اسرائیل اور متعدد مغربی ملک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے اختیار کا مطالبہ نہیں کرے گا جہاں وہ 2007 سے اقتدار میں ہے لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے غزہ سے مستقبل پر مشورہ کیا جانا چاہیے۔

اسرائیل نے 600 سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو یہ کہتے ہوئے مؤخر کر دیا ہے کہ حماس اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کے موقع پر انہیں عوامی طور پر تحویل میں دے کر معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

SEE ALSO: غزہ کی تعمیر نو کے لیےمتبادل عرب منصوبہ، 20 ارب ڈالر صرف کرنے کا امکان

مشرق وسطی کے لیے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف کی بدھ کو اسرائیل میں آمد متوقع ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ دوسرے مرحلے پر بات چیت کریں گے جس سے غزہ میں جنگ کے مکمل خاتمے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

غزہ میں لڑائی 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے زیرقیادت حملے سے شروع ہوئی تھی، جس میں اسرائیل کےمطابق تقریباً 1200 افراد مارے گئے اور 251 کو غزہ لے جا کر یرغمال بنا لیا گیا۔

فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملے میں 48 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور زیادہ تر علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ تاہم وزارت صحت یہ نہیں بتاتی کہ ہلاک ہونے والوں میں جنگجو کتنے تھے۔ جب کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ 17 ہزار جنگجو بھی مارے جا چکے ہیں۔

(اس رپورٹ کی معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)