|
ویب ڈیسک -- جاپان کے مشہور سیاحتی علاقے ماؤنٹ فجی کے قریب ایک ایسا شہر بنایا جا رہا ہے جہاں رہن سہن ایک عام شہر کے مقابلے میں کچھ مختلف ہو گا۔ اس شہر کا نام 'وون سٹی' ہے اور یہ جاپان کی کار ساز کمپنی 'ٹویوٹا' کا منصوبہ ہے۔
ٹویوٹا کا منصوبہ ہے کہ اس شہر میں روز مرہ زندگی میں روبوٹکس، آرٹیفیشل انٹیلی جینس (اے آئی) اور خود کار طریقے سے چلنے والی ایسی ٹرانسپورٹ کا استعمال کیا جائے جو ماحول دوست ہو۔
اس منصوبے کے ایگزیکٹو انچارج اور کمپنی کے بانی خاندان سے تعلق رکھنے والے دائیسو کے ٹویوڈا کہتے ہیں کہ یہ "ایک اسمارٹ سٹی" نہیں ہے۔
ہفتے کو وون سٹی کے دورے کے موقع پر گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ہم نقل و حرکت کے لیے ایک تجربہ کر رہے ہیں، اسی وجہ سے یہ کچھ مختلف ہے۔
ان کے بقول "ہم ریئل اسٹیٹ ڈویلپر نہیں ہیں۔"
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے 10 ارب ڈالر لاگت کے اس شہر کا دورہ کیا ہے۔
وون سٹی میں تعمیرات کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ سٹی کا پہلا مرحلہ 47 ہزار اسکوائر میٹر پر محیط ہے جو لگ بھگ پانچ بیس بال گراؤنڈ کے برابر ہے۔ جب یہ شہر مکمل ہو گا تو اس کا رقبہ 30 لاکھ اسکوائر فٹ سے زیادہ ہو گا۔
کار ساز کمپنی کے مطابق اس شہر کو کمپنی کے ایک بند آٹو پلانٹ کی زمین پر بنایا گیا ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسی جگہ تیار کرنا ہے جہاں ریسرچرز اور اسٹارٹ اپس ایک ساتھ مل کر آئیڈیاز شیئر کرسکیں۔
واضح رہے کہ مستقبل کے شہروں سے متعلق یہ کوئی پہلا منصوبہ نہیں۔ اس سے قبل اس طرح کے منصوبے یا تو ناکام ہوئے ہیں یا ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے ہیں۔
ان میں گوگل کی پیرنٹ کمپنی ایلفابیٹ کا ٹورانٹو میں تجویز کردہ منصوبہ، سعودی عرب میں 'نیوم' کے نام کا پروجیکٹ، سان فرانسسکو کے قریب ایک تاجر کا پیش کردہ منصوبہ اور ابوظہبی ایئرپورٹ کے قریب مصدر شہر کا منصوبہ شامل ہے۔
وون سٹی کی تعمیر 2021 میں شروع ہوئی تھی۔ وہاں تمام عمارتیں زیرِ زمین راہد اریوں سے جڑی ہوئی ہیں جہاں خودکار گاڑیاں گزر کر کچرا اکٹھا کرنے اور سامان کی ترسیل کا کام کریں گی۔
اس وقت وون سٹی میں کوئی رہائش پذیر نہیں۔ لیکن یہاں کے پہلے رہائشی صرف 100 لوگ ہوں گے۔
اس شہر کا نام ٹویوٹا کے آغاز کی یاد میں رکھا گیا ہے۔ ٹویوٹا کا آغاز کپڑا تیار کرنے والی آٹومیٹک کھڈی کے طور پر ہوا تھا۔ سکیچی ٹویوڈا ، دائیسوکے ٹویودا کے سگڑ دادا تھے جن کی والدہ ہاتھ کی کھڈیوں سے کپڑا بُنتی تھیں، وہ اپنی والدہ کا کام آسان بنانا چاہتے تھے۔
ٹویوٹا حکام کے مطابق ان کو کئی برسوں تک وون سٹی سے آمدنی کی توقع نہیں ہے۔
اس شہر میں الیکٹرک گاڑیاں استعمال کرنے سے متعلق کم ہی بات ہوئی ہے کیوں کہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ٹویوٹا پیچھے ہے۔ اس شعبے میں امریکی کار ساز کمپنی ٹیسلا اور چین کی کمپنی بی وائی ڈی ایک بڑے پلیئر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
کوئیک کارپوریٹ ویلوئیشن ریسرچ سینٹر میں گاڑیوں کے ماہر کیسوکے کونیشی کا خیال ہے کہ ٹویوٹا اپنے حریف گوگل کی وے موکا مقابلہ کرنے کے لیے روبوٹک رائڈز پر کام کرنا چاہتی ہے۔
ان کے بقول یہ سب کرنے کے لیے ٹویوٹا کے پاس رقم ہے۔
واضح رہے کہ وے مو ایک سیلف ڈرائیونگ یعنی بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیوں کا ایک پروجیکٹ ہے۔
فورم