رسائی کے لنکس

شہباز شریف کا وسط ایشیائی ریاستوں کا دورہ؛ 'پاکستان ٹرانزٹ سینٹر کے طور پر اُبھرنا چاہتا ہے'


  • مبصرین کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا وسط ایشیا کے دو اہم ممالک کے دورے کا محور دفاعی و معاشی تعاون کا فروغ ہے۔
  • تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ایک اہم تجارتی اور ٹرانزٹ مرکز کے طور پر ابھرنا چاہتا ہے۔
  • سابق وفاقی سیکریٹری توانائی ڈاکٹر گلفراز احمد کہتے ہیں کہ وسط ایشیائی ممالک کی سمندر تک رسائی نہیں ہے جس کے باعث ان کی ٹرانزٹ روٹ کے لیے پاکستان کی طرف دلچسپی ہے۔

اسلام آباد -- پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اپنا دو روزہ دورۂ آذربائیجان مکمل کرکے ازبکستان پہنچ گئے ہیں جہاں وہ ازبک صدر سے ملاقات کریں گے۔خطے کے حالات اور علاقائی صورتِ حال کے تناظر میں اس دورے کو اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق اس دورے کے دوران پاکستان اور ازبکستان کے درمیان کئی دو طرفہ معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں۔

بیان کے مطابق 'پاکستانی وزیرِاعظم اور ازبک صدر دو طرفہ ملاقات کے دوران رابطوں، معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، دفاع و سکیورٹی، علاقائی استحکام اور تعلیم سمیت دیگر شعبوں میں تعاون پر تبادلۂ خیال کریں گے۔'

اس سے قبل شہباز شریف کے دورہ آذربائیجان کے دوران دونوں ممالک نے پیر کو تجارت، توانائی، سیاحت اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے متعدد معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا وسط ایشیا کے دو اہم ممالک کے دورے کا محور دفاعی و معاشی تعاون کا فروغ ہے۔

گزشتہ سال سے پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک کے درمیان دوروں، سرمایہ کاری کے مذاکرات اور اقتصادی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

'قریبی تعلقات کی وجہ افغانستان بھی ہے'

سابق سفیر اور وسط ایشیائی امور کے ماہر طارق عثمان حیدر کہتے ہیں کہ سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پاکستان کی خواہش رہی ہے کہ وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اس کے تاریخی، ثقافتی اور تجارتی تعلقات بحال ہوں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں پہلے جیسی گرمجوشی نہ ہونے کے باعث بھی اسلام آباد سوچتا ہے کہ خطے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھائے جانے چاہئیں۔

طارق عثمان کے بقول وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کی ایک وجہ افغانستان بھی ہے تاکہ خطے کے ممالک افغانستان کے حوالے سے مشترکہ حکمتِ عملی اپنا سکیں۔

دفاعی امور کے ماہر جنرل (ر) زاہد محمود کہتے ہیں کہ نئے عالمی منظر نامے کے تناظر میں وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ آذربائیجان اور ازبکستان بہت اہمیت کا حامل ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان کی سرزمین عالمی دہشت گردوں کی آماجگاہ بنتی جارہی ہے جو پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک کے لیے مشترکہ خطرہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کو استحکام کی طرف لے کر جانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک انٹیلی جینس شیئرنگ کے ساتھ ساتھ مشترکہ حکمتِ عملی اپنائیں۔

خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ طالبان حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ اس کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوتی اور یہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے۔

'پاکستان ٹرانزٹ مرکز کے طور پر اُبھرنا چاہتا ہے'

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ایک اہم تجارتی اور ٹرانزٹ مرکز کے طور پر ابھرنا چاہتا ہے اور اسلام آباد کی کوشش ہے کہ چاروں طرف خشکی میں گھرے وسط ایشیائی ممالک کو عالمی منڈیوں تک رسائی فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے۔

سابق وفاقی سیکریٹری توانائی ڈاکٹر گلفراز احمد کہتے ہیں کہ وسط ایشیائی ممالک کی سمندر تک رسائی نہیں ہے جس کے باعث ان کی ٹرانزٹ روٹ کے لیے پاکستان کی طرف دلچسپی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان بھی چاہتا ہے کہ ان دوست ممالک کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں سے منسلک کیا جائے اور اس ضمن میں اسلام آباد نے وسط ایشیائی ممالک کو ٹرانزٹ روٹ کی سہولت کی پیش کش کررکھی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان چاہتا ہے کہ وہ وسط ایشیائی ممالک سے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرسکے تاہم توانائی کے حوالےسے تاحال معاہدوں میں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔

ڈاکٹر گلفراز نے کہا کہ پاکستان کے وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی، ثقافتی اور سفارتی تعلقات ہیں اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد ان تعلقات میں مزید استحکام آیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی طرز پر پاکستان ایک اور راہداری کے منصوبے پر غور کر رہا ہے جو اسے وسط ایشیائی ممالک تک منسلک کرے گا۔

ان کے بقول یہ راہداری منصوبہ خطے میں تجارت کے فروغ کا اچھا ذریعہ بنے گا اور اب اس میں ماضی کی دقتیں بھی حائل نہیں رہی ہیں۔

پاکستان کی تیل کی ضروریات کے لیے وسط ایشیائی ممالک پر نظریں

طارق عثمان نے کہا کہ آذربائیجان کے دورے کے نتیجے میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں پیش رفت ہو گی جو کہ گیس پائپ لائن، پاکستان میں آئل ریفائنری اور ایل این جی کے معاہدوں کی صورت میں ہوسکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان آذربائیجان کو فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ جے ایف 17 تھنڈر طیارے بھی فراہم کرنا چاہتا ہے اور اس دورے کے نتیجے میں یہ پیش رفت بھی متوقع ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کا مارچ 2024 میں منصب سنبھالنے کے بعد آذربائیجان کا یہ دوسرا دورہ ہے۔

دفاعی تعاون کے امکانات

ازبکستان کے دورے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے طارق عثمان نے کہا کہ صنعتی ترقی کے لیے پاکستان ازبکستان سے تکنیکی معاونت لے سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روسی ساختہ طیاروں کی ٹیکنالوجی کے حصول میں بھی پیش رفت ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی دونوں ملکوں کے لیے تشویش کا باعث ہے جس کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی کے ذریعے افغان طالبان پر دباؤ کی ضرورت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ازبکستان کو جوہری توانائی کے حوالے سے تعاون فراہم کرے کیوں کہ وہاں سے بڑی تعداد میں یورینیم خام صورت میں بیرونی دنیا کو برآمد ہو جاتا ہے۔

دفاعی تعاون کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ زاہد محمود نے کہا کہ ازبکستان اور آذربائیجان کو دفاعی خطرات کا ادراک ہے جس سے نمٹنے کے لیے تینوں ملکوں کے درمیان مضبوط عسکری تعاون پایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آذربائیجان کا جے ایف 17 تھنڈر کے حصول کے لیے پاکستان کے ساتھ معاہدہ موجود ہے اور اس دورے کے نتیجے میں معاہدے پر پیش رفت ہوگی۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان ایسا ملک ہے جو وسط ایشیا کے اپنے دوست ممالک کی دفاعی ضروریات کو یقینی بناتا ہے جس کی مثال ماضی میں مشاق طیاروں کی فراہمی اور پائلٹس کی تربیت شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG