امریکہ کی اشتعال انگیزی کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں: ایران

ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف ٹوکیو میں اپنے جاپانی ہم منصب سے ملاقات کے بعد صحافیوں کے سوالات کا جواب دے رہے ہیں۔ 16 مئی 2019

ایران نے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی جوہری معاہدے سے امریکہ کے الگ ہونے کے باوجود معاہدے کی شرائط پر عمل کرنے کے عزم پر قائم ہے۔

ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے یہ بات جمعرات کو ٹوکیو میں اپنے جاپانی ہم منصب ٹارو کونو سے ملاقات کے دوران کہی ہے۔

ملاقات کے آغاز پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جواد ظریف نے امریکہ کی جانب سے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کو قطعی طور پر ناقابلِ قبول قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے اعلان اور پابندیوں کے دوبارہ نفاذ پر ایران ہر ممکن تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران سمجھتا ہے کہ امریکہ خود غیر ضروری طور پر کشیدگی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔

ملاقات کے آغاز پر جاپانی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کو مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر سخت تشویش ہے اور وہ جاری تنازع کے حل اور کشیدگی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

ٹارو کونو کا کہنا تھا کہ 2015ء میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کو برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھے۔

صدر ٹرمپ کی حکومت کی جانب سے ایرانی برآمدات پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ نافذ کیے جانے کے بعد گزشتہ ہفتے ایران نے دھمکی دی تھی کہ اگر معاہدے پر دستخط کرنے والی دیگر پانچ عالمی طاقتوں نے امریکی پابندیوں کا توڑ نہ کیا تو ایران معاہدے کی بعض شقوں پر عمل درآمد روک دے گا۔

لیکن ماہرین اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ تاحال ایران کی جانب سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے کہ وہ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

حالیہ کشیدگی کے پیشِ نظر امریکہ نے اپنا ایک طیارہ بردار جہاز، جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کے حامل جنگی طیارے اور میزائل بیٹریاں مشرقِ وسطیٰ روانہ کر دی ہیں، جب کہ عراق میں تعینات اپنا اضافی سفارتی عملہ واپس بلا لیا ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ تمام اقدامات خطے میں امریکی مفادات پر ایرانی حملوں کے خدشے کے پیشِ نظر کیے ہیں۔

رواں ہفتے خلیج میں چار آئل ٹینکرز پر حملوں اور سعودی عرب کے دو آئل پمپنگ اسٹیشنز پر ڈرون حملوں کے بعد کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔ گو کہ ان حملوں کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی، لیکن سعودی عرب نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ان حملوں میں ایران کو ملوث سمجھتا ہے۔

امریکہ کے تمام اہم یورپی اتحادی زور دے کر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھانے سے گریز کرے اور بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالے۔