امریکہ نے عراق میں تعینات اپنے نان ایمرجنسی سفارتی عملے اور سرکاری اہل اروں کو وہاں سے نکلنے کا حکم دے دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی حکومت نے یہ حکم عراق میں سرگرم ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں سے امریکی شہریوں کو لاحق خطرات کے پیشِ نظر دیا ہے۔
بغداد میں واقع امریکی سفارت خانے نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ سفارت خانے اور اربیل میں واقع قونصل خانے کے نان ایمرجنسی ملازمین کو محکمۂ خارجہ نے عراق سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔
بیان کے مطابق عملے کے انخلا کی وجہ سے سفارت خانے اور اربیل کے قونصل خانے سے نارمل ویزوں کا اجرا عارضی طور پر معطل رہے گا۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ امریکہ اپنے کتنے اہل کار عراق سے واپس بلا رہا ہے۔ لیکن بیان میں کہا گیا ہے کہ جن اہل کاروں کو عراق چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں فوری طور پر ملک سے جانے کے لیے کہا گیا ہے۔
محکمۂ خارجہ کے ایک اہل کار نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ نان ایمرجنسی عملے کو عراق سے واپس بلانے کا فیصلہ سیکورٹی کی صورتِ حال کے جائزے کے بعد کیا گیا ہے۔
اہل کار کے بقول امریکی شہریوں کو عراق میں سنگین نوعیت کا خطرہ لاحق ہے اور عملے کو واپس بلانے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کسی نقصان کے امکان کو کم سے کم کرنا چاہتا ہے۔
اس سے قبل امریکی فوج نے منگل کو عراق میں تعینات اپنے فوجیوں پر ایران کی جانب سے حملوں کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
لیکن امریکہ کے انتہائی قریبی یورپی اتحادی برطانیہ کے ایک سینئر فوجی کمانڈر نے ان خدشات پر شک کا اظہار کیا تھا۔ ایران نے امریکی فوج کے ان دعووں کو "نفسیاتی جنگ" کا ایک حربہ قرار دیا تھا۔
امریکہ کے تمام اہم یورپی اتحادی اس پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ اپنی محاذ آرائی کو ختم کرے اور کشیدگی بڑھانے سے گریز کرے۔
ایران اور امریکہ کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی پر عراق کے وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی کا کہنا ہے کہ انہیں دونوں ملکوں کی قیادت سے جو اشارے مل رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا۔
لیکن عراقی وزیرِ اعظم کے اس بیان کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان الفاظ کی جنگ جاری ہے اور دونوں ایک دوسرے کو کسی جارحیت کی صورت میں تباہ کن ردعمل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔