رسائی کے لنکس

’سوا لاکھ امریکی فوجی مشرقِ وسطیٰ نہیں جا رہے‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ ان کی حکومت ایران سے لاحق خطرات کے پیشِ نظر ایک لاکھ 20 ہزار فوجی اہل کار مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' نے منگل کو دعویٰ کیا تھا کہ قائم مقام وزیرِ دفاع پیٹرک شناہن نے گزشتہ ہفتے قومی سلامتی سے متعلق ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ایران سے لاحق خطرات کے مقابلے کے لیے ایک منصوبہ تجویز کیا تھا۔

اخبار کے مطابق، منصوبے میں ایران کی جانب سے امریکی فوج یا خطے میں امریکہ کے مفادات پر کسی حملے یا اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری تیز کرنے کی صورت میں ایک لاکھ 20 ہزار تک امریکی فوجی اہل کار خطے میں تعینات کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

ٹائمز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ مجوزہ منصوبے میں ایران پر زمینی حملے کی تجویز شامل نہیں تھی کیوں کہ اس کے لیے مزید فوجی دستوں کی ضرورت پڑتی۔

اخبار نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ منصوبہ اس سے قبل پیش کیے جانے والے لائحہ ٔ عمل کی نظرِ ثانی شدہ شکل تھا جس میں قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سمیت ایران کے خلاف سخت موقف رکھنے والے اہل کاروں کی سفارشات پر تبدیلیاں کی گئی تھیں۔

لیکن، منگل کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کو 'فیک نیوز' قرار دیا۔

صدر نے کہا کہ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ کیا وہ مشرقِ وسطیٰ میں فوج بھیج سکتے ہیں، تو یقیناً وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن، ان کے بقول، فی الحال امریکہ کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہےکہ اس کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اگر ایسی کوئی ضرورت پڑی تو ان کی حکومت اس سے کہیں زیادہ فوج وہاں بھیجے گی۔

واضح رہے کہ ٹرمپ حکومت پہلے ہی ایک طیارہ بردار بحری جہاز اور جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کے حامل جنگی طیارے مشرقِ وسطیٰ بھیج چکی ہے جب کہ پیٹریاٹ میزائل کی بیٹری اور جنگی کشتیوں کو لنگر انداز ہونے کی سہولت فراہم کرنے والے لینڈنگ پلیٹ فارم ،ڈاک شپ بھی علاقے کی جانب روانہ کر دیے گئے ہیں۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام خطے میں امریکی مفادات پر ایرانی حملے کے خطرے کے پیشِ نظر کیا ہے۔

امریکہ کا یہ اقدام ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایرانی تیل کی برآمدات پر امریکی پابندیاں موثر ہو گئی ہیں جن کے ردِ عمل میں ایران نے اپنی بعض جوہری سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔

امریکی پابندیوں، طیارہ بردار جہاز کی آمد اور اس پر ایران کے سخت ردِ عمل کے باعث خطے کی صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے۔

XS
SM
MD
LG