ایسے میں جب کشیدگی بڑھ گئی ہے، امریکہ نے ایران کے دھات کے شعبہ جات پر تعزیرات عائد کر دی ہیں۔ اس بات کا اعلان بدھ کے روز وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کیا گیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ 2015ء کے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے ایک سال بعد، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتظامی حکم نامہ جاری کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’حکم نامے میں ایران کے لوہے، اسٹیل، ایلومینیم اور تانبے کے شعبہ جات کو شامل کیا گیا ہے، جن کی برآمد سے اسلامی جمہوریہ کی معیشت میں 10 فی صد کی آمدن ہوتی ہے‘‘۔
اس سے قبل ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ ان کا ملک افزودہ یورینیم اور بھاری پانی کے ذخیرے پر عائد پابندیوں پر عمل درآمد منسوخ کر دے گا، جس پر 2015ء کے بین الاقوامی سمجھوتے کے تحت پابندی تھی۔
معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور ایران کے خلاف معاشی تعزیرات دوبارہ لگائے جانے کے بعد، روحانی نے بدھ کے روز کہا تھا کہ سمجھوتے پر دستخط کرنے والے باقی ملکوں نے معاہدے کی ضروری پاسداری نہیں کی، جس کے نتیجے میں ایرانی تیل اور بنکاری کے شعبہ جات پر امریکی پابندیاں لاگو ہونے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
اُنھوں نے باقی ملکوں کو 60 دن کی مہلت دی ہے اور کہا ہے کہ اس کے بعد ایران یورینیم کی اعلیٰ سطح کی افزودگی جاری کر دے گا۔ تاہم، روحانی کا کہنا تھا کہ اگر دیگر ممالک ایران کا ساتھ دیتے ہیں تو ان کی حکومت معاہدے کی پاسداری جاری رکھے گی۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ امریکی اقدامات کی بنا پر ایران کے لیے ناممکن ہوگیا ہے کہ وہ ویسے ہی چلتا رہے اور یہ کہ معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک کے پاس اسے سہارا دینے کی زیادہ گنجائش باقی نہیں رہی۔