پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں گزشتہ تین ماہ سے مسلسل کمی آ رہی ہے اور افراطِ زر اب سنگل یونٹ (10 فی صد سے کم) کی شرح پر آ گئی ہے۔ دوسری جانب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں گرنے کے بعد پاکستان میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔
وفاقی ادارۂ شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل کے اختتام پر ملک میں مہنگائی کی شرح 8.5 فی صد ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ شرح مارچ کے اختتام پر 10.2 فی صد اور فروری میں 12.4 فی صد پر تھی۔
البتہ گزشتہ سال اپریل کے مقابلے میں مہنگائی کی شرح کچھ زیادہ ہے۔ اپریل 2019 میں افراطِ زر 8.3 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی۔
ادارۂ شماریات کے مطابق ایک ماہ کے دوران ملک میں 51 ضروری اشیا میں سے 14 کی قیمتوں میں کمی، 17 اشیا کی قیمتوں میں استحکام جب کہ باقی 20 اشیا کی قیمتوں میں معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس عرصے کے دوران سب سے زیادہ اضافہ دال مسور کی قیمتوں میں ہوا جو 20 فی صد تک تھا۔ جس کے بعد اس کی اوسط قیمت 141 روپے سے بڑھ کر 171 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ سب سے زیادہ کمی پیاز، ٹماٹر، لہسن اور گوشت کی قیمتوں میں ریکارڈ کی گئی ہے۔
اس صورتِ حال پر معاشی ماہر عمر فاروق کہتے ہیں کہ افراطِ زر کی شرح میں کمی معاشی استحکام کا باعث بنتی ہے اور اس سے صارف کی قوتِ خرید میں بھی کسی حد تک اضافہ ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں 50 فی صد سے زائد کمی کے بعد پاکستان میں بھی یکم مئی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اوسطاً 26 فی صد کے لگ بھگ کم کی گئی ہیں۔
حکومتی نوٹی فِکیشن کے مطابق ملک میں پیٹرول کی قیمت 96 روپے 58 پیسے سے کم ہو کر 81 روپے 58 پیسے فی لیٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 107 روپے 25 پیسے فی لیٹر سے کم ہو کر 80 روپے 10 پیسے، مٹی کا تیل 77 روپے 45 پیسے سے کم ہو 47 روپے 44 پیسے جب کہ لائٹ ڈیزل کی قیمت 62 روپے 51 پیسے سے کم کر کے47 روپے 51 پیسے فی لیٹر کر دی گئی ہے۔
افراط زر اور شرح سود میں مزید کمی کی توقع
معاشی امور کے ماہر خرم شہزاد کہتے ہیں ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا تعین کرتے ہوئے حکومت نے اوسطاً 26 فی صد کمی کی ہے۔ لیکن یہ اوگرا کی جانب سے سفارش کردہ شرح سے 30 فی صد کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کا سب سے زیادہ فائدہ ملک میں مہنگائی کی کمی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ آنے والے مہینوں میں افراطِ زر میں مزید 2.6 فی صد تک کمی کی توقع ہے۔
خرم شہزاد نے کہا کہ اس کے واضح اثرات نظر آ رہے ہیں کہ آئندہ چند ماہ میں افراطِ زر کی شرح 7.5 فی صد تک آ جائے گی جو عوام کے ساتھ ساتھ معیشت کے لیے بھی انتہائی مفید ثابت ہو گی۔
خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ اگرچہ پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے شرح سود میں مزید کمی کے اثرات پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن شرح سود زیادہ کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس مشکل وقت میں معیشت کا پہیہ چلتا رہے اور کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہر معاشی امور عمر فاروق کے مطابق افراطِ زر کی کمی مانیٹری پالیسی کمیٹی کو شرح سود میں کمی کے لیے خلا فراہم کرتی ہے۔ اگر شرح سود میں مزید کمی کی جاتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ حکومت کو بینکوں سے لیے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے دوران ہوتا ہے۔ شرح سود میں کمی سے حکومت وہ پیسہ ترقیاتی اسکیموں پر خرچ کر سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شرح سود میں کمی سے دوسرا بڑا فائدہ ان نجی کمپنیوں اور صنعتوں کو ہوتا ہے جو بلند شرح سود کے باعث بینکوں سے لیے گئے قرضوں پر زیادہ بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں۔ شرح سود میں کمی سے ان پر قرضوں کا بوجھ کم ہوتا ہے اور ان کی مصنوعات کی تیاری پر لاگت بھی کم آتی ہے۔
عمر فاروق کے بقول اسی طرح شرح سود میں کمی سے انفرادی طور پر بھی لوگوں کو یہ ترغیب ملتی ہے کہ وہ سرمایہ کاری کر سکیں۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی تو کی ہے لیکن اس بار بھی پیٹرول، ہائی اسپیڈ ڈیزل، مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل آئل کی مصنوعات میں بالترتیب 26، 24، 300 اور 270 فی صد ٹیکسوں کی شرح میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔
اس اضافے سے حکومت کو اپنا ٹیکس خسارہ جو کہ 900 ارب روپے تک رہنے کی توقع کی جا رہی ہے، کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس خسارہ بڑھنے کی بنیادی وجوہات میں درآمدات کم ہونا، صنعتی سرگرمیاں ماند پڑنے سے محصولات میں واضح کمی اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہ ہونے سمیت کئی عوامل شامل ہیں۔