اقوام متحدہ نے کرونا وائرس کے باعث پاکستانی معیشت کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ وہیں ملک بھر میں بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں کمی کے باعث بیشتر آئل ریفائنریز کو عارضی طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق پاکستان میں بجلی کی کھپت 30 فی صد، پیٹرولیم مصنوعات کی 70 فی صد اور گیس کی کھپت 50 فی صد کم ہو گئی ہے۔ 80 فی صد صنعتیں بند ہونے سے لاکھوں لوگوں کے بیروزگار ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔
پاکستان میں بجلی فراہم کرنے والے ادارے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت بجلی کی طلب 9 ہزار 524 میگا واٹ ہے جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں ان دنوں بجلی کی طلب سے تقریباً 3 ہزار میگا واٹ کم ہے۔
این ٹی ڈی سی کے مطابق ان دنوں بجلی کی طلب کا تخمینہ 12500 سے 13000 ہزار میگا واٹ تک لگایا گیا تھا۔ صنعتوں کی بندش سے 2500 سے 3 ہزار میگاواٹ تک بجلی کی طلب کم ہوئی ہے۔
ملک بھر میں تیل اور گیس کمپنیوں کی جانب سے پیداوار میں کمی کیے جانے کے بعد حکومت نے 2 ریفائنریز کے علاوہ دیگر تمام کو کچھ عرصے کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ان دو ریفائریز میں اٹک ریفائنری لمیٹڈ اور پاک عرب ریفائرنری لمیٹڈ شامل ہیں جبکہ دیگر تین ریفائنریز کو دو ماہ کے لیے بند کر دیا جائے گا۔ تیل کی طلب میں کمی کے سبب نیشنل ریفائنری اور بائیکو پہلے ہی اپنی پیداوار روکنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
جن دو ریفائنریز کو فی الحال پیداوار جاری رکھنے کا کہا گیا ہے ان میں پارکو درآمدی اور مقامی خام تیل کو استعمال کرتی ہے جبکہ اٹک ریفائری زیادہ تر مقامی خام تیل کو استعمال کرتی ہے۔
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ عوام ، بجلی اور گیس کے واجبات تین ماہ میں ادا کر سکتے ہیں اور تاخیر کا نقصان حکومت برداشت کرے گی۔ حکومت نے 1200 ارب روپے کا پیکج دیا ہے۔ تمام فوڈ پراڈکٹس پر ڈیوٹی بھی ختم کردی گئی ہے۔
سینئر تجزیہ کار فرخ سلیم کہتے ہیں کہ بجلی کا استعمال 30 فی صد، پیٹرولیم 70 فی صد جبکہ گیس کا استعمال 50 فی صد کم ہو چکا ہے۔ بجلی کمپنیوں کے ساتھ جو معاہدے کیے ہیں اس میں اگر وہ چلیں یا نہ چلیں انہیں ادائیگی کرنی ہے۔ جس کی وجہ سے جاری خسارے میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔
پاکستانی معیشت سے متعلق اقوام متحدہ کے خدشات
اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ڈھائی کھرب امریکی ڈالر کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کو بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا جو اس بحران سے معاشی طور پر شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی عالمی کساد بازاری بہت سے ترقی پذیر ممالک کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے علاوہ افریقہ کے بعض ممالک، لاطینی امریکہ، جنوبی کوریا، بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا کی معیشتوں پر کرونا وائرس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق یہ ممالک دنیا کی دو تہائی آبادی پر مشتمل ہیں۔ انہیں کرونا وائرس کے باعث ایسے معاشی مسائل کا سامنا ہے، جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
لہذٰا ایسے ممالک کی مدد کے لیے ڈھائی کھرب امریکی ڈالر کے پیکیج کی ضروت ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بحران 2008 کی عالمی کساد بازاری سے مماثلت رکھتا ہے۔ لیکن فی الحال اصل تخمینہ لگانا مشکل ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث ترقی پذیر ملکوں کو سرمایے کے انخلا، کرنسی میں گراوٹ، برآمدات میں کمی اور سیاحتی شعبے سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی جیسے نقصانات کا سامنا ہے۔
لہذٰا اس بات کا امکان کم ہے کہ ترقی پذیر ممالک ان نقصانات کا ازالہ آسانی سے مقابلہ کر پائیں گے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سرمایہ کاری کی مد میں ان ممالک سے صرف دو ماہ میں 59 ارب ڈالرز کا انخلا ہوا ہے۔ جو گزشتہ مالی بحران کے دوران ان ممالک سے نکلنے والے سرمائے (26.7 ارب ڈالر) سے بھی دگنا ہے۔
اسی طرح 2020 کے پہلے تین ماہ کے دوران ترقی پذیر ممالک کی کرنسی میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 5 سے 25 فی صد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
مختلف اجناس کی قیمتوں میں 37 فی صد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ جس پر مختلف ترقی پذیر معیشتیں زرمبادلہ کی مد میں انحصار کرتی ہیں۔
پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں پاکستان کی معیشت پہلے ہی سست روی کا شکار ہے۔
اُن کے بقول حکومتِ پاکستان نے رواں مالی سال کے دوران شرح نمو 2.4 فی صد تک رہنے کا امکان ظاہر کیا تھا۔ جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں بھی کم تھی۔ لیکن اب کرونا وائرس کے باعث یہ شرح مزید کم ہونے کا خدشہ ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت بھی سست روی کا شکار ہے۔ جس سے ہماری برآمدات پر بھی فرق پڑے گا۔ اسٹاک مارکیٹ میں بھی مندی کا رجحان ہے۔ جس کی وجہ غیر ملکی سرمایے کا انخلا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ کے بقول زرعی شعبے میں بھی خاطر خواہ نتائج ملنے کی توقع نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں بھی بند پڑی ہیں۔
سابق وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومتی ٹریژری بلز میں کی گئی بڑی سرمایہ کاری سے بھی پیسے مسلسل نکال رہی ہے۔ جس سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ روپے کی قیمت میں تقریبا 7 فی صد کمی ہو چکی ہے۔ امریکہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک کی جانب سے کی جانے والی درآمدات میں کمی کے باعث ہماری برآمدات میں 20 سے 30 فی صد کمی دیکھی جا رہی ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال میں افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح 9.6 فی صد تک رہنے کا امکان ہے۔ شرح نمو میں مزید کمی کی توقع ہے۔ لاک ڈاون اور کرفیو برقرار رہنے کی صورت میں 10 لاکھ سے زائد دیہاڑی دار ورکرز کو عارضی بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا سکتا ہے۔
ان کے بقول اس طرح 90 لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں۔ حکومت کے جاری اخراجات میں 8 سے 12 فی صد جبکہ ترقیاتی اخراجات میں 10 سے 15 فی صد اضافے کی توقع ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صنعتی شعبے کو سہولیات دینے، توانائی کے ٹیرف کو کم کرنے اور چھوٹی صنعتوں کو تحفظ فراہم کر کے معاشی نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ معاشی ماہرین کے خیال میں فی خاندان امدادی رقم سات ہزار روپے مقرر کی جانی چاہیے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو کرونا وائرس کی وبا سے پیدا شدہ صورتِ حال میں پانچ ارب ڈالر تک کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔