بھارت کی سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے متنازع زرعی قوانین کے سلسلے میں متعدد درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے حکومت سے کہا ہے کہ وہ اتفاق رائے سے قبل ان قوانین پر عمل درآمد روک دے۔
پیر کو سماعت کے دوران عدالت نے حکومتی رویے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے مسئلے کا حل نہ نکلنے کو مایوس کن قرار دیا۔
عدالت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز رکھی اور کہا کہ جب تک کمیٹی اپنی رپورٹ نہ دے، قوانین کو التوا میں رکھا جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آخر اسے انا کا مسئلہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت کے رویے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ آپ مسئلے کا حصہ ہیں یا اسے حل کرنے کا۔
چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال سے پوچھا کہ حکومت یہ بتائے کہ وہ ان قوانین پر عمل درآمد روکے گی یا ہم کوئی فیصلہ سنائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی قانون کو واپس لینے کے حق میں نہیں ہیں لیکن ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قوانین پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کہا کہ احتجاج کے دوران کچھ لوگوں نے خودکشی کی ہے۔ احتجاج میں معمر افراد اور خواتین بھی شامل ہیں۔ آخر یہ کیا ہو رہا ہے؟
بینچ نے یہ بھی کہا کہ عدالت میں ایک بھی ایسی درخواست نہیں آئی ہے جس میں کہا گیا ہو کہ قوانین اچھے ہیں۔
عدالت نے احتجاج کے دوران کھانے پینے کا بھی مسئلہ اٹھایا اور شدید سردی میں کسانوں کے دھرنے پر تشویش بھی ظاہر کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر وہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہو جاتا ہے تو سبھی اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ہاتھوں پر خون کے دھبے ہوں۔ ہم مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی بھی قانون پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں روکا جاتا جب تک کہ وہ قانون بنیادی حقوق اور آئین کے منافی نہ ہو۔ لیکن کسی بھی درخواست میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ یہ قوانین بنیادی حقوق اور آئین کے منافی ہیں۔
کسان رہنماؤں کی جانب سے اس معاملے پر محتاط ردِ عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ تاہم ان کا اب بھی یہی اصرار ہے کہ حکومت مذکورہ قوانین واپس لے۔
اس مسئلے پر حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے والی کمیٹی کے ایک رکن اور ایک کسان رہنما ستنام سنگھ پنو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت 2024 تک ان قوانین کو التوا میں ڈال دے اور ان پر کوئی بات نہ کرے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسانوں کا احتجاج پر امن ہے اور آگے بھی پر امن رہے گا۔ عدالت نے جو ہمدردانہ رویہ دکھایا ہے ہم اس کے لیے شکر گزار ہیں۔
احتجاج میں شامل 40 کسان تنظیموں کے رہنما سپریم کورٹ کی جانب سے کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز پر غور کرنے کے لیے باہمی مشاورت کر رہے ہیں۔ وہ اپنے وکلا سے بھی مشورہ کر رہے ہیں۔ منگل کو جب دوبارہ اس معاملے پر سماعت ہو گی تب وہ اپنا مؤقف پیش کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کسانوں کا یہ احتجاج 47 روز سے جاری ہے اور دارالحکومت دہلی سے متصل ہریانہ اور اترپردیش کی سرحدیں بند ہیں۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے آٹھ دور ہو چکے ہیں۔ تاہم کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
حکومت کی جانب سے اب بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ وہ قوانین میں ترمیم کے لیے تو تیار ہے لیکن وہ انہیں واپس نہیں لے گی۔
ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ کم از کم ایک سال تک ان قوانین کو نافذ کر کے دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس دوران ان میں خامی نظر آتی ہے تو وزیرِ اعظم سے کہا جائے گا کہ وہ ان میں ترمیم کریں۔ لیکن حکومت قوانین واپس نہیں لے گی۔
وزیر اعلیٰ ایم ایل کھٹر اتوار کو ہریانہ کے کرنال میں کسانوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرنے والے تھے مگر احتجاجی کسانوں نے وہاں توڑ پھوڑ کی۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ کا ہیلی کاپٹر اترنے کی اجازت بھی نہیں دی۔
پولیس نے ان پر قابو پانے کے لیے پہلے واٹر کینن کا استعمال کیا اور پھر لاٹھی چارج کیا۔