بھارتی کشمیر کے اسکول میں پُر اسرار دھماکہ، 28 طالب علم زخمی

بھارتی کشمیر میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے اشک آور گیس کا استعمال، فائل فوٹو

بُدھ کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پُلوامہ کے کاکہ پورہ علاقے میں واقع ایک نجی اسکول میں ہونے والے ایک پُراسرار دھماکے میں 28 طالب علم زخمی ہو گئے۔

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے دھماکہ کسی بارودی کے پھٹنے سے ہوا۔ تاہم تحقیقات جاری ہیں۔

محکمہ صحت کے ایک عہدیدار نے کہا ہے 14 طلبہ اور طالبات کو، جنہیں ممکنہ بم دھماکے میں آہنی ذرے لگنے سے زخم آ ئے تھے، ایک مقامی طبی مرکز میں لایا گیا۔ ان میں سے تین کو تشویشناک حالت کے پیش نظر سرینگر کے ایک بڑے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ جب کہ 14 طالب علموں کو ضلع پُلوامہ کے دوسرے طبی مراکز میں داخل کرایا گیا ہے۔

دھماکے کی خبر پھیلتے ہی علاقے میں مشتعل لوگوں نے مظاہرے کئے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے پولیس اہل کاروں کا ایک گروپ جیسے ہی دھماکے کے مقام پر پہنچا تو مشتعل نوجوانوں نے ان پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ پولیس نے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے اشک آور گیس استعمال کی، جس کے بعد طرفین کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔

سری نگر میں پولیس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اسکول میں دھماکہ دسویں جماعت کی ایک کلاس میں سہ پہر کے وقت ہوا۔

ایک اور خبر کے مطابق شورش زدہ ریاست کے وسطی ضلع بڈگام کے چاڈورہ علاقے میں بُدھ کے روز حفاظتی دستوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں دو مشتبہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کا تعلق سب سے بڑی مقامی عسکری تنظیم حزب المجاہدین سے تھا۔ ان کی شناخت ہلال احمد وانی اور شعیب محمد لون کےطور پر کی گئی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں عسکریت پسند سیکورٹی فورسز پر حملوں اور عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے مقدمات میں مطلوب تھے۔

بُدھ ہی کے روز مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں دو روزہ عام ہڑتال کے پہلے دن معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہڑتال کی اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے کی تھی جس کا مقصد آئینِ ہند کی دفعہ 35 اے کے خلاف مبینہ طور پر کی جانے والی "سازشوں" پر احتجاج کرنا ہے۔

دفعہ 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کے پشتنی باشندوں کا انتخاب کرنے اور ان کے لئے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون سازیہ کو حاصل ہے۔ دفعہ 35 اے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں مفادِ عامہ کی کئی درخواستیں زیرِ سماعت ہیں جن میں اس کی آئینی حیثیت پر اعتراضات اُٹھا کر اسے منسوخ کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔

ان میں سے ایک درخواست ایک غیر سرکاری تنظیم 'وی- دی سٹیزنز' نے 2014 میں دائر کی تھی۔ اس تنظیم کو مبینہ طور پر قدامت پسند ھندو تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دفعہ 35 اے منسوخ کی جاتی ہے تو اس سے ریاست میں 1927 سے نافذ وہ قانون متاثر ہو گا جس کے تحت صرف مقامی مستقل باشندے ہی ریاست میں غیر منقولہ جائیداد خرید اور بیچ سکتے ہیں، سرکاری ملازمتیں اور تعلیمی وضائف حاصل کر سکتے ہیں اور ریاستی اسمبلی کے لئے ووٹ ڈال سکتے ہیں۔