پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں قوم پرست جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد مقبول بٹ کی برسی کے موقع پر احتجاج کیا گیا اور ہڑتال کے سبب معمولاتِ زندگی معطل رہے۔
محمد مقبول بٹ کو 11 فروری 1984ء کو دِلّی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔
انھیں 1960ء کی دہائی میں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے بومئی سوپور علاقے میں انٹیلی جنس افسر کے قتل کے مقدمے میں مجرم قرار دیتے ہوئے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنائی گئی تھی۔
پیر کو مقبول بٹ کی 35 ویں برسی پر مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں احتجاجی ہڑتال ہوئی جس کے سبب پوری وادی کشمیر میں معمولاتِ زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔
اُن کی برسی کے موقع پر بھارت مخالف جلسے جلوسوں کے انعقاد کو روکنے کے لیے سرینگر کے چند علاقوں میں غیر معمولی حفاظتی پابندیاں عائد کی گئیں جبکہ سرینگر میں اور وادئ کشمیر کے دوسرے حصوں میں مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں کی اضافی نفری تعینات ہے۔
پولیس نے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے قائدین اور سرکردہ کارکنوں کو اُن کے گھروں میں نظر بند کردیا تھا۔ وادی میں ریل سروسز کو حفظِ ماتقدم کے طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔
'مشترکہ مزاحمتی قیادت' کی اپیل پر کارکنوں اور حامیوں نے سرینگر کے مائسیمہ علاقے سے ایک احتجاجی جلوس نکالا تو پولیس نے فوری طور پر حرکت میں آکر انہیں حراست میں لے لیا۔
شرکا نے کتبے اور بینر ہاتھوں اُٹھا رکھے تھے اُن پر بھی مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کی باقیات کو لوٹانے کا مطالبہ درج تھا۔
ان تنظیموں نے مقبول بٹ کی باقیات کو لوٹانے کا مطالبہ دہرایا ہے تاکہ انہیں ان کے آبائی علاقے میں اسلامی اور مقامی روایات کے مطابق دفنایا جا سکے۔
پھانسی کے بعد مقبول بٹ کی میت کو تہاڑ جیل کے احاطے ہی میں دفنایا گیا تھا۔ سرینگر کے عید گاہ علاقے میں واقع شہداء کے مزار میں پہلی قبر مقبول بٹ کی باقیات کے لئے خالی رکھی گئی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشیمر میں احتجاج
دوسری طرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نامہ نگار روشن مغل کے مطابق کشمیری قوم پرست راہنما مقبول بٹ کی برسی کے موقع پر ریاست کی خودمختاری کی حامی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کی طرف سے ریلیاں نکالی گئیں۔
کشمیر کی پاکستان اور بھارت دونوں سے علیحدگی کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے تمام دھڑوں کی جانب سے مقبول بٹ اور شہداء چکوٹھی کی برسی کے موقع پر مظفرآباد، راولاکوٹ، کوٹلی میرپور اور نیلم ویلی کے علاوہ کئی قصبوں اور دیہات میں خود مختار کشمیر کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔
1990ء میں مقبول بٹ کی برسی کے موقع پر ضلع ہٹیاں بالا کے سرحدی قصبہ چکوٹھی میں جنگ بندی لائن توڑتے ہوئے کئی افراد بھارتی فوج کی گولیوں سے ہلاک ہو گئے تھے۔
کشیمر نیشنل لبیریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ
محمد مقبول بٹ قوم پرست جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ یا جے کے این ایل ایف کے بانیوں میں شامل تھے جو اب کئی حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اس کا ایک فعال حصہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ہے اور آج کل متنازعہ ریاست کے دونوں حصوں میں سرگرم ہے۔
تنظیم کا منشور کشمیر کی مکمل آزادی ہے۔ یہ گلگت بلتستان سمیت ریاست کے تمام حصوں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی حامی جماعت ہے۔ تنظیم کا عسکری ونگ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں مسلح جدوجہد میں ہراول دستے کے طور پر سرگرم رہا ہے۔
مقبول بٹ کو 11 فروری 1984ء کو دِلّی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ انہیں 1960ء کی دہائی کے دوران بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے بومئی سوپور علاقے میں ایک بھارتی انٹیلی جنس افسر امر چند کو قتل کرنے کے مقدمے میں مجرم قرار دیتے ہوئے ایک مقامی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔
یاد رہے کہ مقامی عدالت کے جج نیل کنٹھ گنجو، جس نے مقبول بٹ کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 1990 میں مسلح جدوجہد کے آغاز پر ہی جے کے ایل ایف سے وابستہ عسکریت پسندوں نے سری نگر کے ایک بھرے بازار میں گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
بھارتی پارلیمان پر 17 برس پہلے ایک حملے میں مجرم قرار دیئے گئے کشمیری باغی محمد افضل گورو کو بھی تہاڑ جیل ہی میں 9 فروری 2013ء کو پھانسی دی گئی تھی اور وہیں پر اُن کی میت کو دفنایا گیا تھا۔