2009 میں بھارت کے سول سروسز امتحانات میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے کشمیری ڈاکٹر شاہ فیصل سرکاری ملازمت سے مستعفی ہو گئے ہیں۔
شاہ فیصل نے جو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ میں کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، انہوں نے بدھ کو ایک ٹویٹ میں لکھا کہ وہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں اور بھارت میں آباد 20 کروڑ مسلمانوں کو غیر اہم بنانے اور گمنامی کی طرف دھکیلنے اور انہیں بنیاد پرست ہندتوا طاقتوں کی طرف سے عملا" دوسرے درجے کے شہری بنانے کی مہم کے خلاف ’انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس‘ سے مستعفی ہوئے ہیں۔
انہوں نے سرکاری نوکری چھوڑنے کی چند اور وجوہات بتائیں جن میں ان کے بقول بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے کسی پُرخلوص کوشش کا آغاز نہ کرنا، ریاست کی خصوصی آئینی پوزیشن اور شناخت پر درپردہ حملے اور قوم پرستی کے نام پر بھارت میں عدم برداشت اور نفرت کا بڑھتا ہوا کلچر شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے وہ ان اہم امور اور مسائل پر بات نہیں کر سکتے تھے لہٰذا انہوں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نوکری چھوڑ دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا استعفیٰ بھارت میں ریزرو بینک آف انڈیا، سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن اور نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی جیسے قومی عوامی اداروں کو غیر فعال بنانے اور انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں کے خلاف بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کوششوں سے ملک کی آئینی عمارت منہدم ہو جائے گی جسے روکنا ضروری ہے۔ شاہ فیصل کے مطابق وہ ملک میں حق، دلیل اور شعور کی آواز کی ترجمانی کرنا چاہتے ہیں۔
شاہ فیصل اس وقت تک پہلے ایسے کشمیری اور تیسرے بھارتی مسلمان ہیں جنہوں نے آئی اے ایس امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
ان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ شاہ فیصل اب ریاست کی ایک بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ممکن ہے کہ وہ اس سال کے آخر میں بھارتی پارلیمان کے ایوانِ زیرین لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ بھی لیں۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں شاہ فیصل کے سیاست میں آنے کے عندیے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ میں لکھا''بیوروکریسی کا نقصان، سیاست کا فائدہ۔ خوش آمدید شاہ فیصل''۔
36 سالہ شاہ فیصل نے وائس آف امریکہ کو بتایا "فی الوقت میں نے سرکاری ملازمت چھوڑنے کے متعلق ہی سوچا ہے لیکن یہ بھی نہیں کہوں گا کہ میں سیاست میں نہیں جاؤں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں جو عوامی خدمت کر رہا تھا سیاست اُسی کی توسیع ہے۔ اگر ہم ایک صاف ستھری اور ایماندارانہ سیاست کے ذریعے لوگوں کی خدمت کر سکتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا کام ہو گا۔ خاص طور پر کشمیر میں اس کی بڑی ضرورت ہے"۔
گذشتہ برس بھارتی حکومت نے شاہ فیصل کی خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا جب اُنہوں نے ملک میں عصمت دری کے بڑھتے واقعات کے بارے میں ایک متنازع ٹویٹ کیا تھا۔
شاہ فیصل کا تعلق بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع کپوارہ کے سوگام علاقے سے ہے جو متنازعہ ریاست میں تقریبا" تین دہائیوں سے جاری شورش میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل ہے۔ شورش کے عروج پر ان کے والد غلام رسول شاہ کو نامعلوم حملہ آوروں نے قتل کیا تھا۔ پولیس نے اس واقعے کے لیے عسکریت پسندوں کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ شاہ فیصل کے والد اور والدہ دونوں درس و تدریس کے پیشہ سے وابستہ رہے ہیں۔