صرف چار دن کی خاموشی کے بعد بُدھ کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے کئی علاقے ایک مرتبہ پھر تشدد، مظاہروں اور افراتفری کی لپیٹ میں آ گئے۔ اس دوران کم سے کم چار شہری جن میں ایک نو عمر لڑکا بھی شامل ہے بھارتی فوج کی فائرنگ میں ہلاک ہو گئے۔ لیکن عہدیدار وں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ہلاکتیں عسکریت پسندوں اور حفاظتی دستوں کے درمیان ایک جھڑپ کے دوران گولیوں کے تبادلے کی زد میں آنے سے ہوئیں۔
یہ جھڑپ شورش زدہ ریاست کے گرما ئی صدر مقام سری نگر سے 72 کلو میٹر جنوب میں واقع ضلع کلگام کے کھڑونی علاقے میں بُدھ کی صبح شروع ہوئی تھی۔
عہدیدار کہتے ہیں کہ جھڑپ کا آغاز اُس وقت ہوا جب بھارتی فوج، مقامی پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) اور بھارت کے وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف نے منکر کھڑونی کا یہ اطلاع ملنے پر محاصرہ کرکے کارروائی شروع کردی کہ وہاں کے ایک نجی گھر میں کالعدم لشکرِ طیبہ سے وابستہ کم سے کم دو عسکریت پسند چُھپے ہوئے ہیں۔
طرفين کے درمیان تاحال ایک بھارتی فوجی ہلاک اور اُس کے تین ساتھی زخمی ہو گئے ہیں۔ فوج نے آپریشن کے دوراں گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کئے اور پھر عسکریت پسندوں کی کمین گاہ کو اڑانے کے لئے بارود اور مارٹر بم استعمال کئے اور اس کے ساتھ ہی خود کار ہتھیار بھی چلائے۔ علاقے سے موصولہ تازہ اطلاع میں کہا گیا ہے کہ وہ مکان جہاں مبینہ عسکریت پسند موجود تھے، مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے جبکہ دو ملحقہ مکانوں سے آگ کے شعلے اُٹھ رہے ہیں۔عسکریت پسندوں کی قسمت کے بارے میں تا حال کچھ معلوم نہیں۔
پولیس اور فوج کے عہدیداروں نے بُدھ کو رات گئے بتایا کہ علاقے میں آپریشن منسوخ کیا گیا ہے- انہوں نے کہا کہ تباہ شدہ مکان کے ملبے سے کوئی لاش نہیں ملی۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انکاؤنٹر کے دوران ہی مقامی لوگوں نے سڑکوں پر آ کر بھارت مخالف مظاہرے کئے اور پھر اُس مقام کی طرف پیش قدمی کرنے لگے جہاں محصور عسکریت پسندوں اور حفاظتی دستوں کے درمیان مقابلہ ہو رہا تھا۔
مظاہرین میں شامل نوجوان مبینہ طور پر تشدد پر اُتر آئے اور فوج پر پتھراؤ کرنے لگے- فوج نے ان پر فائرنگ کی تو متعدد افراد زخمی ہو گئے،جن میں سے چار اسپتال لے جاتے ہوئے یا اسپتال پہنچتے ہی چل بسے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حفاظتی دستوں نے مظاہرین پر چھرے والی بندوقیں بھی چلائیں اور اشک آور گیس بھی چھوڑی۔ 35 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ عہدیدار وں نے بتایا کہ مظاہرین کی سنگ باری سے کئی حفاظتی اہل کار زخمی ہو گئے۔
ہلاک ہونے والے شہریوں کے بارے میں سری نگر میں جاری کئے گئے پولیس بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں اور حفاظتی اہل کاروں کے درمیان ہوئے گولیوں کے تبادلے کی زد میں آ گئے تھے۔
کھڑونی کلگام میں پیش آئی شہری ہلاکتوں کی خبر پھیلتے ہی وادئ کشمیر کے کئی علاقے ایک مرتبہ پھر اُبل پڑے۔ جگہ جگہ بھارت مخالف مظاہرے کئے جارہے ہیں۔ کئی مقامات پر مظاہرین اور حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
حکام نے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیشِ نظر تعلیمی ادارے پھر بند کردیے ہیں۔ ریل سروسز روک دی ہیں، انٹرنیٹ سروسز کو جزوی طور پر معطل کردیا ہے اور استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے قائدین اور سرکردہ کارکنوں کو ان کے گھروں میں نظر بند کردیا ہے۔
یہ واقعات ایک ایسے موقع پر پیش آئے ہیں جب وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے نئی دہلی میں بھارت کے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ سے ملاقات میں ریاست میں امن و امان کی تیزی کے ساتھ بگڑتی ہوئی حفاظتی صورتِ حال بات کی۔ اس سے پہلے انہوں نے وزیرِ اعلیٰ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ دفاع نرملا سیتھا رَمن سے ملاقات زور دیا تھا کہ وہ شورش زدہ ریاست میں خون خرابے کو بند کرانے اور کشمیری نوجوانوں میں پائی جانے والی اجنبیت دور کرنے کے راستے تلاش کریں۔
انہوں نے بھارت اور پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت کے درمیان مسلسل رابطوں پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ سرحدوں پر آئے دن کی جھڑپوں کو روکنے کے لیے دونوں ملکوں کی فوجی اعلیٰ کمان کے درمیان مستحکم رابطے مستقل بنیادوں پر قائم کئے جائیں۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ فائرنگ اور شیلنگ کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی وجہ سے سرحدوں کے اطراف میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کو موت اور تباہی کا سامنا ہے۔