بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے پیر کو نئی دہلی میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کرکے اُن پر زور دیا کہ وہ شورش زدہ ریاست میں خون خرابے کو بند اور اس کے نوجوانوں میں پائی جانے والی اجنبیت کو دور کرنے کے لیے راستے تلاش کریں۔
انہوں نے بھارت اور پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت کے درمیان مسلسل اور بلا ناغہ رابطوں پر بھی زور دیا اور یہ بھی کہا کہ سرحدوں پر آئے دن پیش آنے والی جھڑپوں کو روکنے کے لیے دونوں ملکوں کی افواج کی اعلیٰ کمان کے درمیان رابطے مستحکم اور مستقل بینادوں پر قائم کیے جائیں۔
انہوں نے کہا، ’’ایسا اس لیے ناگزیر ہے کیونکہ فائرنگ اور شیلنگ کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی وجہ سے سرحدوں کے قریب بسنے والے دونوں طرف کے لاکھوں لوگوں کو موت اور تباہی کا سامنا ہے‘‘۔
وزیرِ اعلیٰ کے دفتر سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے وزیرِ اعظم کو ریاست بالخصوص وادئ کشمیر میں پائی جانے والی صورتِ حال کے بارے میں وضاحت سے بتایا۔
واضح رہے علاقے میں بھارتی حفاظتی دستوں کی حالیہ کارروائیوں کے دوران جنوبی اضلاع شوپیان اور اننت ناگ میں ایک ہی دن تیرہ مشتبہ عسکریت پسندوں اور چار شہریوں کو ہلاک کیا گیا تھا جس کے بعد پوری وادئ کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں ، ہڑتالوں اور تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جس کے دوران حفاظتی دستوں کی طرف سے طاقت کے استعمال کے نتیجے میں کم سے کم ایک اور شہری ہلاک اور تقریبا" دو سو افراد زخمی ہوگئے۔ سنگباری کے واقعات میں متعدد حفاظتی اہلکار بھی زخمی ہوگئے۔
محبوبہ مفتی نے وزیرِ اعظم مودی پر زور دیا کہ وہ ’’تشدد کے سلسلے کو ختم کرانے کے لیے کشمیر کے نوجوانوں میں پائی جارہی مایوسی اور اجنبیت کا ازالہ کریں‘‘۔
انہوں نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ ریاست کے عوام جنہوں نے ان کے بقول گزشتہ تین دہائیوں سے جاری افراتفری کے نتیجے میں بے پناہ مسائل کا سامنا کیا ہے ’’اس مصیبت سے نجات دلانے کے لئے بھارت کی قیادت کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں‘‘۔
وزیرِ اعلیٰ نے اس سے پہلے جمعہ کو اس طرح کی اپیل بھارت کی سیاسی قیادت سے بھی کی تھی اور اس سے کہا تھا کہ وہ سیاسی اور جماعتی سیاست سے اوپر اُٹھ کر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے عوام کو "تشدد کے شیطانی چکر" سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اسے وزیرِ اعلیٰ کی بے بسی سے تعبیر کیا تھا۔ اس سلسلے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیرِ اعلیٰ کے معتمدِ خاص اور ریاست کے وزیرِ تعمیرات اور حکومت کے ترجمانِ اعلیٰ سید نعیم اختر نے وائس آف امریکہ کو بتایا۔"حزبِ اختلاف کیا کہتی ہے اسے کہنے دیجئے ۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان دشمنی اور جنگ کا خمیازہ براہِ راست اور سب سے زیادہ دونوں طرف کے کشمیری عوام کو اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ لہٰذا حزبِ اختلاف کو بھی ہماری آواز کے ساتھ آواز ملاکر نئی دہلی اور اسلام آباد تک یہ بات پہنچانی چاہئیے کہ اس مسئلے کو مزید طول نہ دیں بلکہ اسے افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرکے ہمیں اس مصیبت سے ہمیشہ کے لیے نجات دلائیں۔"
وزیرِ اعلیٰ نے متنازعہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی کے آر پار سفر اور تجارت کو اگلے درجے تک لے جانے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ دونوں طرف کے عوام کے درمیان رابطے کو تقویت دینے سے قیامِ امن کی کوششوں کو منطقی انجام تک لےجانے میں مدد ملے گی-انہوں نے مظفر آباد کے قریب واقع شاردا علاقے میں کشمیری پنڈتوں یا ہندوؤں کے قدیم علمی مرکز کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے زائرین کے لیے کھولنے اور اسے نالندہ اور ٹیکسلا کی طرز پر بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔