بھارت نے تربیت یافتہ کارکنوں کے ویزوں کے اجرا پر امریکی کانگریس کی جانب سے پابندی لگانے کے خطرے سے نمٹنے کےلیے لابئنگ شروع کر دی ہے۔
بھارت کا آئی ٹی کا شعبہ، جس کا زیادہ تر انحصار امریکہ پر ہے، اپنے ملک میں 35 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔
خبررساں ادارے روئیٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیر تجارت نرملا ستھرامن نے کہا کہ نئی دہلی ٹرمپ انتظامیہ پر یہ زور دے رہا ہے کہ بھارت کی 150 ارب ڈالر کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق خدمات امریکی شہریوں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔
اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی واشنگٹن سے یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے دروازے بھارتی ماہرین کے لیے کھلے رکھے۔
آئی ٹی کی بھارتی کمپنیاں 1990 کے عشرے سے امریکیوں کو خدمات فراہم کررہی ہیں۔
وہ صدر ٹرمپ کے ' سب سے پہلے امریکہ ' کے نعرے کو وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔
مسٹر ٹرمپ امریکہ کے روزگار ملک کے اندر ہی رکھنا چاہتے ہیں۔
پچھلے مہینے امریکی کانگریس میں ایک بل لایا گیا ہے جس میں ایچ ون بی ویزہ رکھنے والوں کی تنخواہ کو دو گنا سے زیادہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ امریکہ کا آئی ٹی سیکٹر پہلے ہی اپنے ملازموں کو اونچی شرح سے تنخواہیں دے رہا ہے۔ غیر ملکی ملازموں کی تنخواہیں زیادہ کرنے سے ان کے لیے بیرونی ملکوں سے لوگوں کو بلانا مشکل ہو جائے گا۔
امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ لیکن دونو ں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم گذشتہ تین برسوں سے 67 ارب ڈالر پر رکا ہوا ہے۔ جب کہ امریکہ کے لیے بھارتی آئی ٹی کی خدمات میں 10 فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ ہر سال 65 ہزار ایچ ون بی ویزے جاری کرتا ہے ۔ ماہرین کے لیے جاری کیے جانے والے ان ویزوں کا بڑا حصہ بھارتی انفارمشن ٹیکنالوجی کا شعبہ حاصل کرتا ہے۔
کانگریس میں پیش کیے گئے بل کی منظوری کی صورت میں اس کا زیادہ نقصان بھارت کو برداشت کرنا پڑسکتا ہے۔