پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے حالیہ بیانات سے حکومتی اور سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے جس کے بعد عمران خان کے ایک انٹرویو نے اِس بحث کو مزید پروان چڑھا دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایسی صورتِ حال میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ کیوں کہ ٹکراؤ کی صورت میں نقصان پاکستان کا ہی ہو گا۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے دعوے
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے جمعرات کو اپنی جماعت کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ وہ صرف اس فوجی کو سلیوٹ کرتے ہیں جو آئین کا احترام کرتا ہے۔ وہ اُس فوجی کو سلیوٹ نہیں کرتے جو وزیرِ اعظم ہاؤس کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں نواز شریف نے مزید کہا کہ ان کے دورِ حکومت میں بلوچستان کی حکومت گرائی گئی تاکہ سینیٹ کے انتخابات پر نقب لگائی جا سکے۔
بلوچستان کی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں اس وقت کے کور کمانڈر سدرن کمان لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ بھی شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ نیب نے کیوں عاصم سلیم باجوہ کے خلاف تحقیقات نہیں کیں۔
انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کے حوالے سے سابق وزیرِ اعظم کا دعویٰ تھا کہ پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید ہائی کورٹ کے ایک جج پر دباؤ ڈالنے میں ملوث تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے جج شوکت صدیقی سے کہا تھا کہ انتخابات سے قبل نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو جیل سے باہر نہ آنے دیں۔ کیوں کہ ایسی صورت میں ان کی دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیرِ اعظم عمران خان کے جوابی وار
جمعرات ہی کی رات پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل 'سما نیوز' کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے الزام لگایا کہ نواز شریف ملک سے باہر بیٹھ کر فوج کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے فوج کی نرسری میں پرورش نہیں پائی۔ جس طرح نواز شریف اور ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کی نرسریوں میں پرورش پائی تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ عوام کو متحرک کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہت خطرناک کھیل ہو رہا ہے جو نواز شریف کھیل رہے ہیں۔ یہی کھیل الطاف حسین نے کھیلا تھا۔ میں واضح کہتا ہوں اس میں بھارت پوری مدد کر رہا ہے۔
وزیرِ اعظم نے کا کہنا تھا کہ اگر مجھے کوئی کہے کہ آپ نے حکومت بچانی ہے یا این آر او دینا ہے۔ تو میں حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ میں این آر او نہیں دوں گا۔
'حکومت کی توجہ کام پر نہیں، سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالنے پر ہے'
حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ عمران خان کے مینڈیٹ کو کسی سیاسی جماعت نے تسلیم نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی توجہ کام پر نہیں بلکہ سیاسی مخالفین کو گالیاں دینے اور جیل میں ڈالنے پر ہے۔
لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کو ملک میں آئین کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کو بحال کرنا چاہیے۔
نواز شریف کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی تقریروں کے بعد سے حکومتِ پاکستان نے اُن کی تقریروں کو دکھانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی مانیٹرنگ کرنے والے ادارے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جمعرات کو جاری کیے گئے ایک اعلامیے کے مطابق پاکستان میں کام کرنے والے تمام نشریاتی ادارے کسی بھی مجرم یا مفرور شخص کی تقریر نہیں دیکھا سکتے۔
پیمرا کی جانب سے لکھے گئے خط میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا نام نہیں لیا گیا۔
اِس سے قبل بھی پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر وزیرِ اعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ایک مجرم کی تقریر دیکھانے پر پابندی ہو گی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ لیکن اُس کے بعد یہ پابندی ہٹا لی گئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ ماضی میں بھی حکومت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سابق قائد الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی لگا چکی ہے بعد ازاں عدالت نے بھی ان کی تقاریر پر پابندی کی توثیق کر دی تھی۔ اُن پر الزامات ہیں کہ لندن میں بیٹھ کر اُنہوں نے پاکستان مخالف تقاریر کی ہیں۔
ایچ آر سی پی کی پیمرا کی پابندی کی مذمت
پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے پیمرا کی پابندی کی مذمت کی ہے۔
ایچ آر سی پی کے جاری بیان کے مطابق یہ اقدام پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادیٔ اظہارِ رائے کی خلاف ورزی ہے۔
ایچ آر سی پی کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے بیان میں کہا ہے کہ پیمرا اِس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف جو کہ ایک مفرور مجرم ہیں اُن کی تقریر کو بھی دکھایا جاتا رہا ہے۔
ایچ آر سی پی نے بیان میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اِس پابندی کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔ کیوں کہ حکومت خود یہ کہتی رہی ہے کہ پاکستان میں میڈیا جتنا آج آزاد ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔
کیا نواز شریف کا بیانیہ مقبول ہو رہا ہے؟
مبصرین کے مطابق جہاں تک بات ہے نواز شریف کے بیانیے کی تو وہ اِس وقت مقبول ہو رہا ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب ماضی میں نواز شریف نا اہل ہو کر لاہور پہنچے تھے اور جی ٹی روڈ پر اُنہوں نے بیانیہ دیا تھا کہ 'مجھے کیوں نکالا، یہ لوگ سلیکٹ کرتے ہیں، یہ لوگ سیاسی لوگوں کو نکال باہرکرتے ہیں'، اِس کے بعد سے نواز شریف کو اپنی جماعت کے اندر سے بہت زیادہ سپورٹ ملی۔
'اسٹیبلشمنٹ بھی پریشان ہے'
احمد ولید سمجھتے ہیں کہ نواز شریف نے حالیہ دنوں میں جو باتیں کی ہیں اور ایک ایسا بیانیہ جو پہلے ڈرائنگ روم میں تھا۔ یہ باتیں لوگ گھروں کے اندر یا محفلوں میں کر رہے تھے۔ اب یہ باتیں پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے کی ہیں۔
احمد ولید کے بقول اسٹیبلشمنٹ بھی پریشان ہے۔ جب کہ تحریکِ انصاف اور اُن کی حکومت بھی پریشان ہے۔
احمد ولید کا کہنا تھا کہ حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اگر وہ نواز شریف پر ویسی ہی پابندی لگائے۔ تو مسئلہ ہونا تھا کہ پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے یہ حکمتِ عملی اپنائی کہ ان کو تقریریں کرنے دیں کہ وہ کیا بولتے ہیں۔ جس کے بعد فیصلہ ہوگا۔ جس کے بعد پیمرا کی ہدایات آ گئی ہیں کہ کسی بھی مفرور شخص کو کوریج نہیں دی جا سکتی۔
ان کے بقول حکومت کو پریشانی تو ہے کیوں کہ حکومت کہتی ہے کہ اُنہیں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ ہے اور دونوں ایک صفحے پر ہیں۔ دوسری طرف ایک بڑی جماعت کے رہنما اُس کے مخالف بیانیہ دیں گے تو اُس سے حکومتی جماعت کو پریشانی تو لاحق ہو گی۔
احمد ولید کا کہنا تھا کہ عوام بھی سمجھتے ہیں کہ تحریک اِنصاف نے اسٹیبلشمنٹ کو پورا کنٹرول دے دیا ہے۔ عام تاثر یہ اُبھر رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یہ حکومت چلا رہی ہے اور عمران خان ایک ڈمی وزیرِ اعظم ہیں۔
'جو کچھ یہ مانگ رہے تھے وہ نہیں ملا تو یہ بیانیہ سامنے آیا'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار صابر شاکر سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کا موجودہ بیانیہ اُنہیں کوئی بہت بڑا فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔
صابر شاکر اُس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ یہ بیانیہ اُس وقت لے کر آئے ہیں جب وہ اپنے تمام پتے کھیل چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے صابر شاکر نے کہا کہ بطور رپورٹر اُن کے پاس معلومات ہیں کہ مریم نواز براہِ راست بات چیت کرتی رہیں۔ بندے بھیجے گئے۔ منت ترلہ پروگرام جسے کہتے ہیں وہ سارا کچھ کیا گیا۔ جب ہر طرف سے انکار ہو گیا اور جو کچھ یہ مانگ رہے تھے وہ نہیں ملا تو یہ بیانیہ سامنے آیا ہے۔
صابر شاکر نے مزید کہا کہ سات ستمبر کو سابق گورنر سندھ محمد زبیر آرمی چیف سے ملتے ہیں اور وہاں سے جب باب بالکل بند ہو جاتا ہے تو پھر یہ سار معاملہ شروع ہوتا ہے۔
صابر شاکر کے بقول نواز شریف اپنے بیانیے کے بجائے دھمکی زیادہ دے رہے ہیں۔ بارگیننگ پوزیشن زیادہ بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی بلیک میلنگ کر رہے ہیں۔
صابر شاکر نے کہا کہ پرویز مشرف کے زمانے میں بھی یہ ہوا تھا اُس کے بعد دوسری مرتبہ کونڈولیزا رائس کا ذکر آتا ہے جس کو حرفِ عام میں این آر او کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا ٹارگٹ ابھی بھی یہی ہے۔ اگر اُن کا بیانیہ یہ ہوتا تو پہلے روز سے جب بندہ اقتدار میں ہوتا ہے تو قانون سازی کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر آپ کو اعتراض ہے اگر آپ کا کوئی وژن ہے تو آپ سب سے پہلے قانون سازی کرتے ہیں۔ اگر آپ کو خفیہ اداروں کے کردار پر کوئی اعتراض ہے۔ اگر آپ کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر اعتراض ہے تو اُس کو آپ قانون سازی کی شکل میں لے کر آتے۔ وہ منظور ہو یا نہ ہو یہ بعد کی بات ہے۔ کم از کم ایسا بل ٹیبل تو کیا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کے لوگ اور پاکستان کے عوام یہ بیانیہ اُس طریقے سے قبول کریں گے جیسا کہ نواز شریف توقع کر رہے ہیں۔
کیا حکومتِ پاکستان نواز شریف کو واپس لا سکتی ہے؟
قوانین کے مطابق کسی بھی ملزم یا مجرم کو دوسرے ملک سے واپس لانے کے لیے حکومتی سطح پر رابطہ کیا جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرینِ قانون کے مطابق نواز شریف کے کیس میں پاکستان کا سفارت خانہ برطانوی حکومت سے رابطہ کر سکتا ہے اور وہ براہِ راست مجرم سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔
نواز شریف کی واپسی کے سوال پر صابر شاکر کہتے ہیں کہ یہ حکومت کی خواہش ہو سکتی ہے کہ وہ نواز شریف کو فوراً واپس لے آئیں۔ لیکن کیا برطانیہ کی حکومت کی بھی ایسی خواہش ہو گی؟ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ایسا نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے صابر شاکر نے کہا کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملی جیسا کہ الطاف حسین کے کیس کی مثال واضح ہے۔
صابر شاکر نے کہا کہ الطاف حسین والا ایک بہت اچھا کیس تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین منی لانڈرنگ میں پکڑے بھی گئے۔ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس ہوا۔ لیکن برطانیہ کی حکومت نے باقی تمام شواہد تو پاکستان کی حکومت کو دیے لیکن الطاف حسین نہیں دیا۔ حتیٰ کہ برطانیہ میں گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے بھی حکومتِ پاکستان سے پورا تعاون کیا۔ اِس کیس میں تمام شواہد، فرانزک رپورٹس پاکستان کو دیے لیکن جو مرکزی ملزم تھا، جس کو ماسٹر مائنڈ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اُنہوں نے نہیں دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اِسی طریقے سے اسحٰق ڈار کی مثال ہے۔ نواز شریف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو گا۔
ان کے مطابق لگتا نہیں کہ جو خواہش حکومتِ پاکستان کی ہے وہی خواہش حکومتِ برطانیہ کی بھی ہو۔ نواز شریف کا جو اعتماد ہے اُس سے یہی لگتا ہے کہ اُنہیں واپس لانا مشکل کام ہے۔
دوسری جانب احمد ولید سمجھتے ہیں کہ حکومت کے لیے نواز شریف کو برطانیہ سے پاکستان واپس لانا مشکل کام ہے۔
احمد ولید نے کہا کہ آج سے ہہلے اسحٰق ڈار کو دیکھ لیں، شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز، اِسی طرح نواز شریف کے بیٹے حسن نواز اور حسین نواز مفرور تو قرار دیے جا چکے ہیں۔ لیکن واپس نہیں آ سکے۔
احمد ولید نے مزید بتایا کہ برطانیہ کے قانون میں یہ شامل ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اُسے اُس کے ملک میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تو ایسی صورت میں برطانیہ کی حکومت ایسے افراد کو واپس نہیں بھیجتی۔