پیکا قانون واپس لینے کے مطالبات، یورپی یونین کے خصوصی نمائندے کو بھی تشویش

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں پیکا قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے زیرِ اہتمام اس حوالے سے جمعرات کو اسلام آباد میں مشاورتی اجلاس بھی ہوا ہے۔

ایچ آر سی پی کی شریک چیئرپرسن منیزے جہانگیر کی زیر صدارت پیکا قانون کے خلاف مشاورتی اجلاس میں صحافتی تنظٰیموں، بار ایسوسی ایشنز اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔

یہ قانون صحافت کے خلاف نہیں بلکہ ریاست اور ملک کی 24 کروڑ عوام کے خلاف ہے جو کہ 'ریاست کے اندر بنی ہوئی ریاست' کی جانب سے لایا گیا ہے: فرحت اللہ بابر

'کالا قانون' اظہار آزادی رائے کو محدود نہیں بلکہ ختم کر دے گا۔ اس قانون کا مقصد ریاست کے خلاف مہم کو روکنا نہیں بلکہ ریاستی پروپیگنڈے کو فروغ دینا ہے: اقبال خٹک

اسلام آباد -- ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے پیکا قانون کو بنیادی انسانی حقوق، اظہارِ رائے کے خلاف اور آئین پاکستان سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے انسانی حقوق کے لیے یورپی یونین کے خصوصی نمائندے اولوف اسکوگ نے بھی اس متنازع قانون پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ایچ آر سی پی کی شریک چیئرپرسن منیزے جہانگیر کی زیر صدارت پیکا قانون کے خلاف جمعرات کو اسلام آباد میں مشاورتی اجلاس ہوا جس میں صحافتی تنظٰیموں، بار ایسوسی ایشنز اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔

اجلاس میں متنازع پیکا قانون کے خلاف صحافتی تنظیموں کی جانب سے آزادیٔ صحافت کی تحریک چلانے کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔

شرکا نے قانونی نقطہ نظر سے پیکا ترمیمی بل پر بحث کی اور متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ قانون 'ریاست کے اندر ایک ریاست' کے ذریعے آزادیٔ اظہار کو دبانے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔

اجلاس میں شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے نشاندہی کی گئی کہ ماضی میں اسی قانون کے خلاف آواز بلند کرنے والی سیاسی جماعتوں نے اب اس میں ترامیم کو انتہائی تیزی سے منظور کر لیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ آزادیٔ اظہار کے تحفظ کے حوالے سے کہاں کھڑی ہیں۔

اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ یہ قانون نہ صرف صحافیوں بلکہ پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے تمام شہریوں پر اثر انداز ہو گا۔

'یہ قانون 24 کروڑ پاکستانیوں کے خلاف ہے'

اجلاس کے دوران وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی ہیومن رائٹس سیل کے صدر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ قانون صحافت کے خلاف نہیں بلکہ ریاست اور ملک کی 24 کروڑ عوام کے خلاف ہے جو کہ 'ریاست کے اندر بنی ہوئی ریاست' کی جانب سے لایا گیا ہے۔

انہوں نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ فیک نیوز کی تعریف کو مبہم رکھا گیا ہے جس کا استعمال اختلافِ رائے رکھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔

ماہر قانون صلاح الدین نے خبردار کیا کہ اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص، متاثرہ فریق بنے بغیر، شکایت درج کروا سکتا ہے جس سے اس کے وسیع اور ناجائز استعمال کے دروازے کھل جائیں گے۔

فریڈم نیٹ ورک کے اقبال خٹک نے کہا کہ یہ 'کالا قانون' اظہار آزادی رائے کو محدود نہیں بلکہ ختم کر دے گا۔ اس قانون کا مقصد ریاست کے خلاف مہم کو روکنا نہیں بلکہ ریاستی پروپیگنڈے کو فروغ دینا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جعلی خبروں کو روکا جانا چاہیے۔ لیکن آزادیٔ اظہار اور رازداری کے حق کے درمیان ایک متوازن راستہ اختیار کیا جانا ضروری ہے جیسا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔

حکومت پیکا قانون کو اہم سمجھتی ہے۔ حکومتی رکنِ قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ایک عرصے سے مادرپدر آزادی ہے اور لوگوں کی عزتیں اچھالی جارہی ہیں۔لیکن بدقسمتی سے کسی ایک کے خلاف بھی ایکشن نہیں لیا جاسکا۔ اب اس قانون کی مدد سے ایسے تمام لوگوں کو قانون کے دائرے میں لایا جا سکے گا۔

اُن کے بقول پوری دنیا میں میڈیا کی آزادی کے ساتھ ساتھ اسے ریگولیٹ کر کے ریاست کے خلاف بیانیے کو روکا جاتا ہے۔ ان کے بقول، حکومت آزادیٔ رائے کے حق میں ہے لیکن جہاں ریاست کے معاملات آتے ہیں وہاں حکومتی عمل دخل ضروری ہے۔

'ہر کوئی اس کی زد میں آ سکتا ہے'

ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ اسامہ خلجی کہتے ہیں کہ پیکا قانون اظہار رائے کی آزادی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اب ہر کوئی اس کا شکار ہو سکتا ہے۔

ان کے بقول پاکستان میں پہلے ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس بند ہے۔ اب یہ قانون اجازت دیتا ہے کہ یہ کسی بھی پلیٹ فارم کو بند کر سکتے ہیں۔

اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ آزادیٔ اظہار کے تحفظ کے لیے ایک وسیع تر اتحاد تشکیل دیا جائے گا جس میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس شامل ہوں گے۔

یہ اتحاد ملک میں آزادیٔ صحافت، ڈیجیٹل حقوق اور آزادیٔ اظہار کے تحفظ کے لیے مؤثر کردار ادا کرے گا اور حکومت پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ پیکا جیسے متنازع قوانین کو واپس لے۔

Your browser doesn’t support HTML5

صحافی پیکا قانون میں ترامیم کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟

یورپی یونین کے خصوصی نمائندے کی تشویش

دوسری جانب پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے یورپی یونین کے خصوصی نمائندے اولوف اسکوگ کا کہنا ہے کہ ملک میں اظہار رائے کو محدود کرنے کے حالیہ حکومتی اقدامات پر انہوں نے آرمی چیف، چیف جسٹس اور وفاقی کابینہ کے ارکان سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے الگ الگ ملاقاتوں میں بات کی ہے۔

یورپی یونین کے نمائندے کے دورے کا مقصد حکومت کے ساتھ انسانی حقوق کے اہم معاملات پر بات چیت کرنا اور جون 2025 میں ہونے والے جی ایس پی پلس مانیٹرنگ مشن سے قبل ان سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے منصوبوں کے بارے میں جاننا ہے۔

جی ایس پی پلس پروگرام کے تحت پاکستان کو یورپی یونین کی منڈیوں تک ترجیحی رسائی حاصل ہے اور معاشی مشکلات کی شکار حکومت اس پروگرام میں توسیع کی خواہش مند ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اولوف کا کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے لیے ایک اور شرط ہے۔