|
کراچی — ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے انسانی حقوق کی حالت پر اپنی سالانہ رپورٹ میں ملک بالخصوص سندھ میں امن و امان کی صورتِ حال پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کمیشن نے کہا ہے کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔
کمیشن کے مطابق صوبے میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری رہا جب کہ کمزور معاشرتی پس منظر رکھنے والوں کے حقوق کو پامال کیا گیا اور اقلیتیوں کی عبادت گاہوں پر حملے بھی رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سال 2023 کے دوران اسٹریٹ کرائمز کی 90 ہزار سے زائد وارداتیں ہوئیں جب کہ 2022 میں یہ تعداد 80 ہزار سے زائد تک تھی۔ یوں ایک سال میں یہ اضافہ 11 فی صد ریکارڈ کیا گیا۔
ایچ آر سی پی کے مطابق اسی عرصے میں ڈکیتیوں اور دیگر اسٹریٹ کرائمز کے دوران 134 شہریوں کو قتل جب کہ سینکڑوں کو زخمی کیا گیا۔ صرف کراچی میں ایک سال کے دوران 59 ہزار سے زائد موٹر سائیکلز اور 2336 کاریں چوری یا چھین لی گئیں۔ اس دوران سندھ میں ریکارڈ 3296 پولیس مقابلے ہوئے جو گزشتہ کسی بھی سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں۔
سندھ کے وزیرِ اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت جرائم کی روک تھام کے لیے تمام تر کوششیں کر رہی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں جرائم میں کمی آئی ہے اور صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال میں خاصی بہتری دیکھی گئی ہے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانون کی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے سندھ میں 16 ایسے کیسز بھی رپورٹ ہوئے جس میں لوگوں نے قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے ملزم کو خود ہی سزا دینے کی کوشش کی۔
اس کے علاوہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں ریپ کے 202 کیسز اور گینگ ریپ کے 19 کیسز رپورٹ ہوئے۔ سخت قوانین کے باوجود صوبے میں غیرت کے نام پر 168 قتل رپورٹ ہوئے۔
جبری گمشدگیوں کا سلسلہ سندھ میں بھی جاری
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی لوگوں کو جبری گمشدہ کیا جاتا رہا اور صوبے کے مختلف اضلاع سے ایک سال میں مزید 175 شہریوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا جن میں سے 135 افراد کو کراچی سے غائب کیا گیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے جبری گمشدگیوں کا شکار افراد کی بازیابی میں پولیس کی ناکامی پر بھی سخت نوٹس لیا مگر اس کے باوجود ان واقعات کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آسکی۔
SEE ALSO: بلوچستان: مبینہ جبری گمشدگیوں کے کیسز میں اضافے کا دعویٰاس کے علاوہ صوبے میں مختصر عرصے کے لیے جبری گمشدگی کا شکار لوگوں کی فہرست بھی سامنے آئی ہے جن میں کئی صحافی بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب کمیشن برائے جبری گمشدگی کے پاس سال 2011 سے اب تک 1787 کیسز سندھ سے سامنے آئے۔ ان میں سے 777 افراد گھر واپس آگئے جب کہ 41 حراستی مراکز میں پائے گئے۔ باقی رہ جانے والے 266 جیلوں میں پائے گئے جب کہ 63 افراد کی لاشیں ملیں۔
کمیشن کے مطابق اس وقت بھی صوبے سے 163 افراد لاپتا ہیں۔
توہین مذہب کے کیسز، اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے
ایچ آر سی پی کے مطابق صوبے میں مذہبی آزادیوں پر بھی قدغنیں برقرار رہیں اور کئی واقعات میں مختلف اقلیتیوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق سندھ میں سال 2023 میں توہینِ مذہب کے 18 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ نومبر 2023 تک سندھ کی جیلوں میں توہینِ مذہب کے الزام میں 82 قیدی موجود تھے جن میں سے محض چار ہی سزا یافتہ تھے۔ باقی کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتوں بالخصوص ہندوؤں اور احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کا سلسلہ رواں سال بھی جاری رہا۔ کراچی میں ایک ہفتے میں ایسے دو واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح کشمور میں ڈاکوؤں نے ایک مندر کو راکٹ لانچر سے بھی نشانہ بنایا۔
صوبے میں ہونے والی مبینہ زبردستی تبدیلی مذہب کے کیسز کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کا کہنا ہے کہ صوبے میں میڈیا سے وابستہ کارکنوں کے خلاف بھی جرائم رپورٹ ہوئے ہیں۔ سندھی زبان کے چینل سے وابستہ صحافی جان محمد مہر کو سکھر میں قتل بھی کیا گیا جن کے قاتلوں کو اب تک پولیس گرفتار کرنے اور اسے سزا دلانے میں ناکام رہی ہے۔
SEE ALSO: پاکستانی میڈیا پر قتل،گمشدگیوں اور نئے قانون کے گہرے ہوتے ہوئے سائےرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نو مئی 2023 کو پُرتشدد ہنگاموں کے بعد تحریک انصاف کے 25 سے زائد رہنماؤں سمیت درجنوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور اس طرح خواتین سمیت درجنوں کارکنوں پر لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔ اسی طرح پولیس نے پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کے خلاف اس وقت کیسز درج کیے جب وہ رکن اسمبلی علی وزیر کی رہائی کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔
خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات
کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ماضی کی طرح سال 2023 بھی خواتین کے لیے کوئی خاص تبدیلیاں نہیں لے کر آیا اور اس سال بھی خواتین ورکرز کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 2023 میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ صوبائی حکومت نے خواتین مسافروں کی سہولت کے لیے بعض بامعنی اقدامات کو یقینی بنایا ہے جس سے خواتین کے لیے ہراساں کیے جانے کے خوف کے بغیر سفر کرنا آسان ہوا۔ لیکن یہ ابھی کافی محدود پیمانی پر ہی ممکن ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت کا صوبے میں ہر یونین کونسل (یو سی) میں خواجہ سراؤں کے لیے نشستیں مخصوص کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو ایک مثبت اقدام ہے۔
تاہم رپورٹ میں کہا گیا کہ خواجہ سرا کمیونٹی کی جانب سے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا جس کے تحت عدالت نے ٹرانسجیڈر پرسنز کے تحفظ کے قانون کی بعض شقوں کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔
حکومت کم سے کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد میں ناکام
اگرچہ صوبائی حکومت کی جانب سے گزشتہ سال کم سے کم تنخواہ 32 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی۔ لیکن کمیشن کے مطابق اس پر نجی فیکٹریوں یا اداروں میں عمل درآمد یقینی نہیں بنایا جاسکا۔
SEE ALSO: پاکستان میں تیزاب گردی: 'جس کا چہرہ جھلستا ہے اس کے ساتھ پورا خاندان جلتا ہے‘اس حوالے سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کا کہنا ہے کہ ملک میں 80 فی صد غیر ہنر مند افراد اس سے قبل طے کی گئی کم سے کم اجرت یعنی 25 ہزار روپے بھی وصول نہیں کر پا رہے ہیں۔
شہریوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے: صوبائی وزیرِ اطلاعات
سندھ کے وزیرِ اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت جرائم کی روک تھام کے لیے تمام تر کوششیں کر رہی ہے۔ مارچ میں حلف اٹھانے کے بعد ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جس سے امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے۔
شرجیل میمن نے کہا کہ صوبائی حکومت کے لیے اولین ترجیح شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے اور اسی مقصد کے لیے تمام تر ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت معاشرے کے تمام کمزور گروہوں بشمول اقلیتوں اور مختلف فرقوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لیے پُر عزم ہے۔
وزیرِ اطلاعات نے بتایا کہ حکومت نے حال ہی میں کچے کے علاقے میں ڈرون کے ذریعے ڈاکوؤں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور عادی مجرموں کی ای-ٹیگنگ کے لیے ابتدائی طور پر چار ہزار ڈیوائسز خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔