رسائی کے لنکس

غزہ میں جنگ بندی کے لیے 'آگے بڑھنے کے راستے' پر کام کر رہے ہیں: وائٹ ہاؤس


  • امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل میں منظور ہونے والے جنگ بندی معاہدے پر پیش رفت کی کوششیں جاری ہیں۔
  • حماس کی بعض ترامیم اور معمولی نوعیت کی ہیں جن کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے: وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان
  • مصر اور قطر کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی نوعیت ایسی ہے کہ پیش رفت میں وقت لگ سکتا ہے: جیک سلیوان
  • حماس کی وجہ سے جنگ بندی معاہدے میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے: صدر بائیڈن
  • ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کا سلامتی کونسل پر اسرائیل کو جنگ بندی پر قائل کرنے کے لیے زور

ویب ڈیسک -- امریکہ نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل سے منظور ہونے والے جنگ بندی مسودے پر حماس کی تجویز کردہ ترامیم کے بعد امریکہ اس معاملے پر 'آگے کی راہ' تلاش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ حماس کی بعض ترامیم معمولی نوعیت کی ہیں جن کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ تاہم کچھ ترامیم 'بے ربط' ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی مسودہ سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا تھا جسے منظور کر لیا گیا تھا۔

جیک سلیوان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی مسودہ دراصل اسرائیل کی تجویز ہے اور وہ اب بھی اس پر قائم ہے۔

جیک سلیوان نے خبردار کیا کہ مصر اور قطر کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی نوعیت ایسی ہے کہ پیش رفت میں وقت لگ سکتا ہے۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر کا مزید کہنا تھا کہ جنگ بندی کی کوششوں میں امریکہ قطر اور مصر کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ قطر اور مصر حماس کے ساتھ جب کہ قطر، مصر اور امریکہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت کریں گے تاکہ کسی حل کی جانب بڑھا جا سکے۔

دریں اثنا ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرے۔

دوسری جانب امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا گروپ سیون اجلاس کے موقع پر کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کی راہ میں حماس رکاوٹ ہے۔

صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ "انہوں نے ایک ایسا طریقۂ کار پیش کیا ہے جس کی توثیق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل، جی سیون اور اسرائیل نے کی ہے۔" ساتھ ہی صدر ںے صحافیوں کو بتایا تھا کہ اب تک کی سب سے بڑی رکاوٹ حماس کا اس تجویز پر دستخط کرنے سے انکار کرنا ہے۔

مذاکرات کی پیچیدگی کے حوالے سے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں عرب امور کے ماہر جیرالڈ فیئرسٹین کہتے ہیں کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی پر بات چیت الجھی ہوئی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے جو اشارے مل رہے ہیں، اس سے بھی شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ جب کہ حماس کا بھی یہ کہنا ہے کہ اُنہیں تحریری طور پر جو کچھ بتایا گیا ہے وہ زبانی یقین دہانیوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

جنگ بندی کے مجوزہ منصوبے کے تحت ابتدائی مرحلے میں لڑائی کو روکنا، غزہ سے کچھ یرغمالوں کی رہائی، اسرائیل کے زیرِ حراست کچھ فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔

فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد میں اضافہ، غزہ کے آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی فوجیوں کی واپسی اور فلسطینی شہریوں کی ان کے گھروں میں واپسی کی تجاویز بھی جنگ بندی مسودے کے پہلے مرحلے میں شامل ہیں۔

منصوبے کے دوسرے مرحلے میں غزہ میں دیگر تمام یرغمالوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کے بدلے لڑائی کے مستقل خاتمے کی تجویز ہے۔

آخری مرحلے میں غزہ کی پٹی کے لیے کئی سالوں پر محیط تعمیر نو کا منصوبہ شامل ہے کیوں کہ غزہ کا بیش تر حصہ آٹھ ماہ کی اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو چکا ہے۔ اس مرحلے میں غزہ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی یرغمالوں کی باقیات کی واپسی بھی شامل ہے۔

گزشتہ سال سات اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ میں اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملے میں تقریباً 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جب کہ حماس نے اس روز 250 کے لگ بھگ افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔

غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک 37 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG