رسائی کے لنکس

غزہ سے چار یرغمالی بازیاب، حماس کا اسرائیلی حملوں میں 200 سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت کا دعویٰ


اسرائیلی فوجی ایک یرغمال کو آزاد کروا کر اپنے ساتھ لا رہے ہیں۔ اسرائیل نے چار یرغمال چھڑوانے کا اعلان کیا ہے۔ 8 جون 2024
اسرائیلی فوجی ایک یرغمال کو آزاد کروا کر اپنے ساتھ لا رہے ہیں۔ اسرائیل نے چار یرغمال چھڑوانے کا اعلان کیا ہے۔ 8 جون 2024
  • عالمی تنقید کے باوجود غزہ پر اسرائیلی فورسز کے حملے جاری ہیں۔
  • اسرائیلی فوج نے غزہ سے چار یرغمال آزاد کرانے کا اعلان کیا ہے۔
  • اسرائیلی جنگی کابینہ کے ایک وزیر جنگ کے بعد غزہ کے انتظام کے منصوبے پر اختلاف کے باعث مستعفی ہو سکتے ہیں۔
  • اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ میں جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کو تحفظ فراہم نہ کرنے والے ملکوں کی فہرست اسرائیل کا نام شامل۔


اسرائیلی فورسز نے ہفتے کے روز بھی غزہ پر فضائی حملے جاری رکھے ہیں جب کہ چار یرغمالوں کو رہا کرانے کا اعلان بھی کیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے نصیرات پناہ گزین کیمپ میں دو مقامات پر کارروائی کر کے چار یرغمال رہا کروا لیے ہیں۔ رہا کرائے جانے والوں میں تین مرد اور ایک خاتون شامل ہیں۔ بیان میں کہا ہے کہ ان کی صحت بہتر ہے۔

حماس کے عسکریت پسندوں نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر اچانک حملہ کر کے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے 100 کے لگ بھگ نومبر کی عارضی جنگ بندی کے دوران فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں آزاد کر دیے گئے تھے۔

اسرائیلی حکام نے حالیہ دنوں میں کہا تھا کہ اب تقریباً 120 یرغمال حماس کی قید میں ہیں جن میں سے ان کی معلومات کے مطابق 43 کے لگ بھگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

ہفتے کو اسرائیل کی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے یرغمالوں کی بازیابی سے متعلق اپنے بیان میں کہا کہ ’’یہ ایک خطروں سے بھرپور پیچیدہ آپریشن تھا جو انٹیلی جینس کی بنیاد پر دن کی روشنی میں کیا گیا۔ یہ کارروائی غزہ کے بہت اندر جا کر دو الگ الگ عمارتوں میں کی گئی۔‘‘

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق حماس نے کہا ہے کہ آٹھ ماہ میں چار یرغمالوں کی بازیابی اسرائیل کی کامیابی نہیں ناکامی ہے۔

ایک اسرائیلی یرغمال اپنی ِآزادی کے بعد خوشی کا اظہار کر رہا ہے۔ 8 جون 2024
ایک اسرائیلی یرغمال اپنی ِآزادی کے بعد خوشی کا اظہار کر رہا ہے۔ 8 جون 2024

ادھر حماس کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ہفتے کو اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 200 سے تجاوز کرگئی ہے۔

تاہم فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتیں اور یرغمالوں کا ریسکیو ایک ہی آپریشن کا حصہ تھے۔

غزہ میں جاری کارروائیاں

عینی شاہدین نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ غزہ کی پٹی کے مرکزی حصے اسرائیلی حملوں کا خاص مرکز بنے ہوئے ہیں اور اسرائیلی فورسز کی بمباری نے کئی حصوں کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔

اس سے قبل جمعرات کو غزہ میں اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام چلنے والے ایک اسکول پر اسرائیلی فضائی حملے میں غزہ کے ایک اسپتال کے مطابق 37 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اسرائیلی فورسز کی بمباری سے غزہ میں تباہ ہونے والے اقوام متحدہ کے ایک اسکول کا کلاس روم۔ اس حملے میں اسکول میں پناہ لینے والوں میں سے 37 افراد ہلاک ہوئے۔ 7 جون 2024
اسرائیلی فورسز کی بمباری سے غزہ میں تباہ ہونے والے اقوام متحدہ کے ایک اسکول کا کلاس روم۔ اس حملے میں اسکول میں پناہ لینے والوں میں سے 37 افراد ہلاک ہوئے۔ 7 جون 2024

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یواین آر ڈبلیو اے نے اسکول پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں چھ ہزار افراد کو عارضی رہائش فراہم کی گئی تھی جہاں پیشگی انتباہ کے بغیر حملہ کر کے درجنوں افراد کو مار دیا گیا۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے غزہ میں نصیرات پناہ گزین کیمپ میں واقع حماس کے ایک ٹھکانے کو نشانہ بنایا جس میں 17 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

حماس نے اپنے ایک بیان میں فوج کے بیان کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہلاک کیے جانے والے جن افراد کی فہرست جاری کی گئی ہے، ان میں سے تین زندہ ہیں۔

اسرائیل حماس اور اس کے اتحادیوں پر غزہ میں اقوام متحدہ کی تنصیبات اور مراکز کو استعمال کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ عسکریت پسند اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

اسرائیل کی عالمی تنہائی میں اضافہ

اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دنیا کے 140 سے زیادہ ممالک فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔

عالمی عدالتِ انصاف اسرائیل کو جنگ روکنے کا حکم دے چکی ہے جس پر وہ عمل نہیں کر رہا۔ اسپین نے عالمی عدالت میں یہ درخواست دائر کی ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر 'قتل عام' کے مقدمے میں جنوبی افریقہ کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے۔

'اے ایف پی' کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ اپنی سالانہ رپورٹ میں ان ملکوں اور گروپوں کی فہرست جاری کرے گی جو جنگ کے دوران بچوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان نے جمعے کو اس پر برہمی کا اظہار کیا کہ اس فہرست میں اسرائیل کا نام بھی شامل ہو گا۔

ایک ذریعے کے مطابق جون کے آخر میں شائع ہونے والی فہرست میں حماس اور فلسطینی عسکری تنظیم اسلامی جہاد کے نام بھی شامل ہوں گے۔

اس فہرست میں جنگ سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔

حماس اور اسلامی جہاد دونوں کو ہی امریکہ اور یورپی یونین سمیت متعدد ممالک دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کر چکے ہیں۔

غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ اب نویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔ حماس کے زیرِ اتنظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک ہر 20 میں سے ایک فلسطینی ہلاک یا زخمی ہو چکا ہے اور غزہ کی پٹی کی 24 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر بے گھر ہو چکے ہیں اور وہ پناہ اور خوراک کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔

اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر کے حملے کے نتیجے میں اسرائیل کے 1194 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ جب کہ 250 کے قریب افراد کو حملہ آور یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ میں لے گئے تھے۔

حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جوابی فوجی کارروائی میں غزہ میں کم از کم 36731 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔

جنگی کابینہ کے وزیر کے مستعفی ہونے کا عندیہ

وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی جنگی کابینہ کے ایک وزیر جنگ کے بعد غزہ کے منصوبے سے متعلق اپنے مطالبے پر دباؤ بڑھانے کے لیے حکومت سے اپنی راہیں جدا کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

اسرائیل کی جنگی کابینہ کے ایک رکن بینی گانٹز کے دفتر نے کہا ہے کہ وہ ہفتے کے روز ایک نیوز کانفرنس کرنے والے ہیں جس میں وہ غزہ میں جنگ کے بعد کے منصوبے سے متعلق نیتن یاہو کو دی گئی اپنی ڈیڈ لائن پر بات کریں گے۔

اسرائیلی میڈیا نے قیاس آرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ گانٹز، جو ایک سابق سیئنر فوجی سربراہ ہیں اور جنگی کابینہ میں شامل ہونے سے پہلے وہ نیتن یاہو کے اہم حریفوں میں شامل تھے، اپنے استعیفے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

(اس رپورٹ کی کچھ معلومات خبر رساں اداروں اے ایف پی، اے پی اور رائٹرز سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG