وفاقی دارالحکومت میں ایک مذہبی جماعت کے کارکنان کے تین ہفتوں پر محیط دھرنے، اس معاملے سے نمٹنے کے حکومتی و انتظامی اقدام اور پھر ملک بھر میں پھیلنے والے احتجاج نے اقتصادی ماہرین کے بقول پہلے سے موجود غیر یقینی سیاسی صورتI حال کی وجہ سے متاثر ہونے والی معاشی سرگرمیوں کو مزید بحرانی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
انویسٹمنٹ اینڈ فنانس سکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مزمل اسلم کہتے ہیں کہ گزشتہ 15 روز سے اسٹاک مارکیٹ میں کاروباری سرگرمیاں قابلِ ذکر حد تک کمی کا شکار رہی ہیں اور موجودہ صورتِ حال بین الاقوامی سطح پر پاکستان سے متعلق کسی مثبت پیغام کا باعث نہیں رہی۔
"اس کا بین الاقوامی سطح پر منفی پیغام گیا کہ چند ہزار لوگ اس ملک کو کسی بھی وقت بند کرا سکتے ہیں۔ اس کے منفی اثرات یہ دیکھے گئے کہ پچھلے 15 دن سے پوری اسٹاک مارکیٹ میں بازار کا حجم صرف 30 فی صد رہ گیا اور اب جب کہ دھرنا ختم ہو گیا ہے اس کے باجود ہماری اسٹاک مارکیٹ میں کوئی خاص سرگرمی نہیں، کوئی والیم نہیں۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ بیرونی سرمایہ کار اس ساری صورتِ حال سے جس انداز میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، وہ مقامی سرمایہ کاروں اور پھر مجموعی طور پر ملک کی معیشت کے لیے سود مند نہیں ہوتی۔
"سرمایہ کار جب بیرونی دنیا سے دیکھتا ہے کہ ایک دن کاروبار چلتے چلتے راتوں رات بالکل 30 فی صد پر آ جاتا ہے تو وہ پھر کوشش کرتا ہے کہ یا تو پاکستان سے اپنے سرمائے کو نکالے یا اگر نہیں نکالتا تو اگر اس نے کوئی چیز 100 روپے میں خریدنی ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ یہ مہنگی ہے ان سے 80 روپے میں خریدو اور وہ اس مں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے مقامی سرمایہ کار اور ملک کو زرِ مبادلہ کی شکل میں خطیر نقصان اٹھانا پڑ جاتا ہے۔"
موجودہ حکومت کے دور میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے دھرنوں کے علاوہ خاص طور پر گزشتہ سال پاناما پیپرز میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام آف شور کمپنیاں رکھنے والوں کی فہرست میں آنے کے بعد پاکستان میں سیاسی محاذ پر کشیدگی اور تناؤ میں اضافہ جب کہ رواں سال عدالت عظمیٰ کی طرف سے نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد ملک میں سیاسی بے یقینی کا سا ماحول چلا آ رہا ہے۔
مزمل اسلم کہتے ہیں کہ پہلے سے پریشان سرمایہ کار کی امیدیں ختم ہوتی دکھائی دیتی ہیں اور اس کی بڑی وجہ ملک میں جاری سیاسی بے یقینی ہے۔
"مارکیٹ 15 سالہ تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔۔۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی حکومتی مشینری امید اجاگر کرنے کے لیے سامنے نہیں آئی۔۔۔ اس کی وجہ سے مارکیٹ میں اعتماد کی شدید کمی پائی جاتی ہے کوئی آدمی اپنے بل بوتے پر خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں۔"
ان کے بقول فی الوقت یہ بحران ٹل تو ضرور سکتا ہے، ختم نہیں ہو سکتا۔