جب ڈوبنے والے جہاز کا عملہ اپنے مرنے والے ساتھیوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہوگیا-مشہور امریکی ناول موبی ڈک کا محرک بننے والا المیہ

  • موبی ڈک اپنے علامتی معنوں، نامساعد حالات میں انسانی ہمت، مقصدیت اور اپنے سے کئی گنا طاقتور چیلنجر سے مقابلے کی داستان کے طور پر مشہور ہے۔
  • بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ 1852 میں شائع ہونے والے اس ناول کا محر ک بننے والا واقعہ در حقیقت جدید دور کی کسی انتہائی ڈراؤنی فلم سے بھی زیادہ بھیانک تھا۔
  • "جزیرے کے رہائشیوں کے لیے وہ کوئی اہم شخص نہیں تھا۔ میرے لیے وہ ان لوگوں میں سے سب سے زیادہ متاثر کن آدمی تھا جن سے میں اب تک ملا ہوں، ہر چند کے وہ ایک عام سا دکھائی دینے والا، یہاں تک کہ عاجز سا بندہ تھا۔"موبی ڈک کے مصنف میل ول
  • سمندر کے اس لرزہ خیز سفر کے بعد بحری جہاز کے کپتان جارج پولرڈ نے اپنی بقیہ زندگی نانٹکیٹ میں گزاری۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سال میں ایک بار وہ ایسیس جہاز کی تباہی کے دن کے موقع پر خود کو اپنے کمرے میں بند کر لیا کرتا تھا اور اپنے کھوئے ہوئے عملے کے اعزاز میں روزہ رکھا کرتا تھا۔

امریکی ادب کا وہیل مچھلی کے افسانوی نام سے موسوم کلاسیکی ناول موبی ڈک اپنے علامتی مطالب، نامساعد حالات میں انسانی ہمت، مقصدیت اور اپنے سے کئی گنا طاقتور چیلنجر سے مقابلے میں حوصلے کی داستان کے طور پر مشہور ہے۔

لیکن یہ بات شاید بہت سے لوگوں کے علم میں نہیں ہے کہ 1852 میں شائع ہونے والے اس ناول کا محر ک بننے والا سمندر میں پیش آنے والا واقعہ در حقیقت جدید دور کی کسی انتہائی ڈراؤنی فلم سے بھی زیادہ بھیانک تھا۔

حتیٰ کہ موبی ڈک کے ناول نگار ہرمن میل ول نے بھی 1820 کے واقعے کی تمام تفصیلات سے پوری طرح بیان نہیں کیں۔ بعض تاریخی تحریریں البتہ اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ گہرے سمندر میں زندگی اور موت کے کھیل کے دوران انسانوں کی بقا کی جنگ نے انہیں کن گھناؤنے اخلاقی امتحانوں سے گزارا۔

میل ول نے جولائی 1852 میں امریکی ریاست میسا چوسٹس کا دورہ کیا جہاں نانٹکیٹ نام کا جزیرہ وہیل مچھلیوں کا شکار کرنے کے بعد ان کا تیل نکالنے کی مہمات کا نقطہ آغاز اور تجارت کا مرکز تھا۔ یہی نانٹکیٹ مقام ناول’موبی ڈک‘کے فرضی نام کے مرکزی کردار اور بحری جہاز کے کپتان ایہاب کا آبائی قصبہ ہے۔

اپنے دورے کے آخری روز میل ول کی ملاقات ایک خستہ حال ساٹھ سالہ شخص سے ہوئی۔ یہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ 1820 میں تباہ ہونے والے "ایسیس" نامی بحری جہاز کا کپتان جارج پولرڈ جونیئر تھا۔ وہی جہاز جس کو پیش آنے والا واقعہ ان کے ناول کی بنیاد بنا اور جس نے انسان اور فطرت کے درمیان تعلق کے بگڑنے سے مرتب ہونے والے گہرے اثرات کو نمایاں کیا۔

ناول پر بننے والی فلم میں کیپٹن اہاب کے کردار میں بین ہیپنر اپنے عملے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ سفید وہیل موبی ڈک پر کڑی نظر رکھیں۔

تین دہائیاں قبل جب ایسیس نامی بحری جہاز ڈوبا تو کپتان جارج پولرڈ کی عمر 29 سال تھی۔ وہ ناول کے کردار ایہاب کے آخر میں ہلاک ہونے کے برعکس اس واقعہ میں بچ جانے والے چند مہم جو سیلرز میں شامل تھے جو نانٹکیٹ جزیرے کو لوٹے۔

پولرڈ نے اس کے بعد بھی ایک اور ناکام بحری مہم میں حصہ لیا اور بعد امیں اس جزیرے میں رات کے چوکیدار کی حیثیت میں کام کر کے زندگی کے باقی سال گزارے۔

میل ول نے ناول میں پولرڈ کے بارے میں ان کے جہاز کے ڈوبنے کے ضمن میں مختصراً تحریر کیا۔ لیکن جب ان کی پولرڈ سے ملاقات ہوئی تو انہیں یہ احساس تھا کہ پولرڈ کا سمندر کے پانیوں میں کڑا امتحان ان کے جہاز کے غرق ہونے سے ختم نہیں ہوا تھا بلکہ یہ تو ایک شروعات تھی۔ میل ول کی پولرڈ سے بات مختصر ہی رہی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پولرڈ کو پھر ان اندوہ ناک یادوں کی تفصیلات کے بیان کرنے کے کرب سے گزرنا پڑے جس کا انہوں نے سمندر میں سامنا کیا تھا۔

ناول نگار نے پولرڈ کے حوالے سے بعد میں لکھا،" جزیرے کے رہائشیوں کے لیے وہ کوئی اہم شخص نہیں تھے۔ میرے لیے وہ ان لوگوں میں سے سب سے زیادہ متاثر کن آدمی تھا جن سے میں اب تک ملا ہوں، ہر چند کے وہ ایک عام سےدکھائی دینے والے، یہاں تک کہ عاجز ی سے پر لگتے تھے ۔"

تاہم، پولرڈ نے سمندر میں گزارے لرزہ خیز لمحات کو اپنے ساتھی کپتانوں اور ایک عیسائی پادری کے سامنےبیان کیا تھا۔ پادری نے پولرڈ کے بیان کو اعتراف جرم کے طور پر لیا جو خوفناک تفصیلات سے عبارت تھا۔

حال ہی میں امریکی میگیزین "اسمتھ سونین" نے ایک مضمون میں ایسیس جہاز کے وہیل مچھلی کے ساتھ لڑائی میں ڈوبنے والے ملاحوں کے واقعات کی تحقیق پر مبنی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں۔

سیلرز کی بقا کی جنگ 92 پر خطر دنوں اور آنکھوں میں گزاری گئی راتوں پر محیط ہے جس دوران ایک سوراخ دوالی کشتی تھی، کھانے کو کچھ نہ تھا۔ تباہ کن واقعہ میں زندہ بچ جانے والے افراد بے رحم دھوپ تلے پاگل پن سے دو چار ہوگئے تھے۔ اور پھر انہیں زندہ رہنے کے لیے اپنے معصوم نوجوانوں کے بد قسمت انجام سمیت، ساتھی انسانوں کا گوشت کھانےپر مجبور ہونا پڑا۔

پولرڈ نے پادری کے سامنے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ بس وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ "اس (واقعہ) کو یاد کرتے ہوئے میرے سر کو گویا آگ لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوتا ہوں۔"

ایسیس بحری جہاز کی تباہی 14 اگست 1819 کو شروع ہوئی جبکہ اسے نانٹکیٹ کی بندرگاہ سے نکلے صرف دو دن ہی ہوئے تھے۔ "سپرم وہیل" یعنی تیل کی ماخذ مچھلیوں کے شکار کے اس سفر کو ڈھائی سال تک جاری رہنا تھا۔ لیکن 87 فٹ لمبا یہ بحری جہاز ایک طوفان کی زد میں آ گیا جس کے نتیجے میں اس کی رفتار بری طرح متاثر ہوئی اور یہ تقریباً ڈوب گیا۔

بحری جہاز کو ہونے والے نقصان کے باوجود پولرڈ نے سفر جاری رکھا اور پانچ ہفتے بعد کسی نہ کسی طرح جنوبی امریکہ کے جزیرہ نما کیپ ہارن تک اسے لے گیا۔ لیکن 20 افراد پر مشتمل عملے کو پتا چلا کہ جنوبی امریکہ کا یہ حصہ وہیل مچھلیوں سے خالی ہو چکا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب عملے نے فیصلہ کیا کہ جنوبی بحر الکاہل کے ساحلوں سے بہت دور سمندری پانیوں میں وہیل مچھلیوں کے میدانوں کا رخ کیا جائے۔

لیکن دور گہرے پانیوں میں جانے سے پہلے کپتان نے ایسیس کو گالاپاگوس کے چارلس جزیرے پر لنگر انداز کیا جہاں عملے نے 100 پاؤنڈ وزنی کچھوے جمع کیے۔ مذاق کے طور پر عملے کے ایک رکن نے وہاں آگ لگا دی، جو خشک موسم میں تیزی سے پھیل گئی. پولرڈ اور ان کا عملہ بمشکل اس آگ سے بچ پایا۔ انہیں زندہ سلامت نکلنے کے لیے شعلوں کے دریا سے گزرنا پڑا۔ سفر پر روانہ ہونے کے ایک دن بعد بھی انہیں جلتے ہوئے جزیرے سے اٹھتا ہوا دھواں دکھائی دیا۔

پولرڈ نے غصے کی حالت میں کہا جس نے بھی آگ لگائی وہ اس سے اس کا بدلہ لیں گے۔ کئی سال بعد بھی چارلس جزیرہ ایک سیاہ بنجر زمین بنا رہا۔ اس کے بعد خیال کیا گیا کہ بڑے پیمانے پر پھیلنے والی آتش کے باعث فلوریانا قسم کے کچھوے اور فلوریانا قسم کے ماکنگ پرندے دونوں معدوم ہو گئے۔ لیکن جزیروں سے ہزاروں میل دور گہرے سمندر میں بقا کی ایک کشمکش ابھی ہونا باقی تھی جس دوران شدید بھوک انسانیت کو آخری حدوں تک پرکھنے والی تھی۔

تین ماہ کے بعد اب نومبر 1820 کا موسم تھا۔ جہاز پر موجود کشتیاں پانی میں اتار کر عملہ نیزوں سے وہیل مچھلیوں کا شکار کر رہا تھا۔ پہلی بار اس قسم کے سمندری سفر پر جانے والے 23 سالا اوون چیز بحری جہاز پر ہی رکے رہے کیونکہ وہ اس کی مرمت کا کام کرتے رہے۔ اچانک انہوں نے ایک بڑی وہیل دیکھی جو ان کے اندازے کے مطابق 85 فٹ لمبی تھی۔ اس نے رفتار تیز کرتے ہوئے جہاز پر حملہ کیا اور آکر اس سے اس قدر زور سے ٹکرائی کہ جہاز پر موجود تمام لوگ منہ کے بل گرتے گرتے بچے۔

مصنف ہرمن میلویل کی نسل سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون موبی ڈک ناول سے اقتباس وہیل کے ڈھانچے کے اوپر پڑھ رہی ہیں۔

پھر یہ بڑی مچھلی جہاز کے نیچے آگئی اور غصے سے اپنے جبڑوں کو بینچنا شروع کردیا۔ اور پھر جیسے غائب سی ہوگئی۔ ابھی عملہ جہاز میں ایک سوراخ کی مرمت کر ہی رہا تھا کہ ایک رکن نے چیخ کر کہا کہ وہیل پھر جہاز پر حملہ آور ہو رہی ہے۔ اور جہاز کے کمان کے نیچے لکڑی کے بالے سے ٹکرائی لیکن پھر یکسر غائب ہوگئی۔

پانی اتنی تیزی سے جہاز میں داخل ہوا کہ عملے کے پاس صرف ایک ہی راہ بچی تھی۔ وہ یہ کہ کشتیوں کو نیچے اتارا جائے اور ایسیس کےڈوبنے سے پہلے ان کشتیوں کو جہاز رانی کے آلات، روٹی، پانی اور دوسرے سازو سامان سے بھر دیا جائے۔

پورے عملے پر سکوت طاری ہوگیا اور کپتان کا رنگ زرد ہو گیا۔ لیکن وہ ڈوبتے جہاز کو چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ اب ان کے پاس صرف تین کشتیاں اور عملے کے 20 افراد تھے۔ فاصلے کے تعین سے پتہ چلا کہ مارکیساس اور سوسائٹی نام کے جزیرے قریب ترین تھے اور پولرڈ ان کی طرف رخ کرنا چاہتے تھے۔ مگر چیز نے اور عملے کے دوسرے ارکان نے کپتان کو یہ ارادہ ترک کرنے پر یہ کہہ کر قائل کیا کہ ان جزیروں میں آدم خور رہتے ہیں اور ان کے لیے بہتر راستہ جنوب کی جانب جانا ہے۔

تاہم، مصنف نیتھنیل فل برک نے اپنی کتاب "سمندر کے دل میں وہیل جہاز ایسیس کا المیہ" میں لکھا کہ اگرچہ اس بارے میں افواہیں گردش کرتی تھیں کہ ان جزیروں پرآدم خورواں کا ڈیرہ تھا لیکن کئی بار لوگ وہاں کسی ایسے واقعہ کے بغیر آتے جاتے رہے۔

چنانچہ عملہ 20 فٹ لمبی کشتیوں پر سوار ہو کر روانہ ہو ا۔ جلد ہی نمکین پانی نے روٹی کو خراب کردیا اور روزانہ کا راشن کھانے پر عملے کو اب پانی کی کمی کا سامنا تھا۔ صبح پولرڈ کی کشتی پر قاتل وہیل نے حملہ کیا تھا۔ دو ہفتے بعد ہینڈرسن جزیرے پہنچے تو زمین کو بنجر پایا۔ ایک اور ہفتہ گزرا تو سامان ختم ہونا شروع ہو گیا۔ عملے کے تین افراد نے وہیں رکنے کا فیصلہ کیا۔

دسمبر کا وسط آگیا۔ کشتیوں میں پانی آنے لگا اور وہیل رات کو حملہ آور ہوتیں۔ حالات سے ستائے اوون چیز کی کشتی پر سوار عملے کے ایک رکن نے کہا مجھے پانی اور ایک نیپکن کی ضرورت ہے اور پھر اس کی حالت غیر ہوگئی اور اگلی صبح وہ چل بسا۔

8 دسمبر 2015 ء بروز منگل اس فائل فوٹو میں نیو بیڈفورڈ کے نیو بیڈفورڈ وہلنگ میوزیم کے ایک دروازے پر ایک وہیل کی شکل سجائی گئی تھی۔ اس عجائب گھر میں ہرمن میلویل کے کلاسک ناول "موبی ڈک" کا 20 واں سالانہ نان اسٹاپ مطالعہ منعقد کیا گیا۔

بعد ازاں، اس بارے میں چیز نے لکھا کہ "اس کے بعد جو کچھ بیان کیا جانے والا ہے اس پر انسانیت کو کانپ اٹھنا چاہیے۔ عملے نے مردے کے اعضا کو تن سے جدا کیا اور ہڈیوں سے سارا گوشت اتارا۔ اس کا جسم کھولنے کے بعد اس کا دل نکالا اور پھر جسم کو سینے کے بعد اسے سمندر میں پھینک دیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس کے اعضا کو پکا کر کھا لیا۔ اگلے تین ہفتوں میں تین مزید افراد موت کی آغوش میں چلے گئے اور ان کے ساتھ بھی بھوک مٹانے کے لیے ایسا ہی کیا گیا ۔

دن گزرتے گئے اور خوراک ختم ہوتی گئی۔ کشتیوں میں سوار دو افراد اتنے کمزور ہوگئے کہ وہ بات بھی نہیں کر پا رہے تھے۔ کپتان کی کشتی میں سوار عملے نے کہا کہ اگر انہیں خوراک نہ دی گئی تو یو جلد ہی مر جائیں گے۔

اب فروری کے چھ تاریخ تھی اور سیلرز کو اپنے بحری جہاز سے جدا ہوئے نو ہفتے گزر چکے تھے۔ عملے میں سے ایک نوجوان چارلس ریمسڈیل نے تجویز دی کہ اب لاٹری کے ذریعہ تعین کیا جائے کے اگلی باری کون اپنے ساتھیوں کی خوراک بنے گا۔ عملے نے جب اس تجویز پر عمل کیا تھا پہلا نمبر کپتان کے کزن کا نکلا جس کا نام اوون کوفن تھا۔

ستم ظریفی یہ تھی کہ کپتان پولرڈ نے لڑکے کی ماں کو عہد دیا تھا کہ وہ اس کی ہر طرح سے حفاظت کریں گے۔ اس تاریک لمحے میں پولرڈ نے کہا کہ اگر تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اب تمہاری باری ہے تو میں تمہیں چھونے والے ہاتھوں کو گولی ماردوں گا۔ پولرڈ نے کہا کہ کوفن کی جگہ اسے ماردیا جائے مگر کوفن نے اس سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ دوسرے لوگوں کی طرح اپنی قسمت کو قبول کریں گے۔

ایک رکن نے آخر کار کوفن کو گولی مار کے ہلاک کردیا۔ بعد میں پولرڈ نے کوفن کے بارے میں لکھا "وہ سارے کا سارا غائب ہوگیا۔ کچھ بھی نہ بچا۔" کپتان پولرڈ کو اس بنا پر اتنی آسانی سے معاف نہیں کیا گیا کیونکہ انہوں نے اپنے کزن کو کھا لیا تھا۔ اوون کوفن کی والدہ کے لیے کپتان کی موجودگی کو برداشت کرنا ممکن نہ تھا۔

سمندر کے اس لرزہ خیز سفر کے بعد پولرڈ نے اپنی بقیہ زندگی نانٹکیٹ میں گزاری۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سال میں ایک بار وہ ایسیس جہاز کی تباہی کی برسی کے موقع پر خود کو اپنے کمرے میں بند کر لیا کرتے تھے اور اپنے کھوئے ہوئے عملے کے اعزاز میں روزہ رکھا کرتے تھے۔

ادھر موبی ڈک کے ناول نگار میل ول 1852 میں اپنی ہی گمنامی میں گم ہونے والے تھے۔ مصنف کی امیدوں کے برعکس ان کی زندگی کتاب کی صرف چند ہزار کاپیاں ہی فروخت ہوئی۔ ناول نگاری کی کچھ اور ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے ایک الگ تھلگ زندگی اپنا لی اور نیویارک شہر میں کسٹم انسپکٹر کی حیثیت سے 19 سال گزارے۔ وہ شراب نوشی کرتے تھے اور انہیں اپنے دو بیٹوں کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ حالات و مصائب سے دل برداشتہ ہوکر انہوں نے ناول نگاری کی بجائے شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا۔

لیکن دوسری طرف کپتان جارج پولرڈ کی قسمت میں پیش آنے والے دردناک واقعات نے ہمیشہ ان کے ذہن کو جکڑے رکھا اور ایک شاعر کے الفاظ میں وہ جب تک زندہ رہے کبھی بھی مسکراتے نہیں تھے اور مخدوش حالت میں جھکے جھکے سے رہتے تھے اور ہمیشہ کسی بے نام سوچ میں گم رہتے تھے۔

(اس تحریر میں بعض معلومات اسمتھ سونین میگزین سے لی گئی ہیں)