صدر ٹرمپ اور جو بائیدن  کی خارجہ پالیسی میں  کیا فرق ہے؟

صدر ٹرمپ اور جو بائیڈن

امریکہ میں دونوں صدارتی امیدواروں ریپبلکن جماعت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مد مقابل ڈیموکریٹ جماعت کےسابق نائب صدر جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی میں چند بنیادی فرق ہیں۔

دنیا سے کیسا میل ملاپ رکھنا ہے، اس بارے میں دونوں امیدواروں کی سوچ مختلف ہے۔ بنیادی فرق یہ ہے، کہ صدر ٹرمپ کا نظریہ ہے سب سے پہلے امریکہ۔ دوسری جانب جو بائیڈن کی سوچ بین الاقوامی شراکت داروں کو ساتھ ملا کر چلنے کی ہے۔

خارجہ پالیسی کے مختلف امور پر فرق کیا ہے، اس میں سب سے پہلے نیٹو سے تعلقات آتے ہیں۔

نیٹو

صدر ٹرمپ کا شروع ہی سے کہنا ہے کہ نیٹو کے رکن ممالک کو اپنے حصے کی دفاعی رقم ادا کرنا ہو گی۔ صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے سے پہلے، سن 2014 میں نیٹو کی جانب سے مقرر کئے گئے اخراجاتی اہداف پورے کر دیے گئے تھے، تاہم متعدد ممالک ایسا نہیں کر سکے۔ امریکہ نے اس سال کے آغاز پر جرمنی سے اپنے 12 ہزار فوجی یہ کہہ کر واپس بلا لیے تھے، کہ جرمنی امریکہ کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔

بیلجیئم میں قائم نیٹو کا خلائی مرکز

جو بائیڈن نیٹو کو امریکہ کی تاریخ کا سب سے اہم اتحادی قرار دیتے ہیں۔ 2019 کے ایک مباحثہ کے دوران، بائیڈن نے متنبہ کیا تھا کہ اگر صدرٹرمپ دوبارہ منتخب ہو گئے تو نیٹو ٹوٹ جائے گا۔ جو بائیڈن عالمی شراکت داروں کو ترجیحی بنیاوں پر بحال کرنے کے خواہاں ہیں۔

روس

جو بائیڈن روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کی امریکی انتخابات میں مداخلت اور دیگر سرگرمیوں کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں۔

بائیڈن کہتے ہیں کہ روس نیٹو کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور افغانستان میں بر سرپیکار امریکی فوجیوں کے سروں کی قیمت لگاتا ہے، اور صدر ٹرمپ اس بارے میں خاموش ہیں۔

روس کے صدر ولادی میر پوٹن

ٹرمپ ان ساری باتوں اور اس الزام کو کہ روس نے 2016کے انتخابات میں ان کو جتوانے کے لئے مداخلت کی، مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے روس پر عائد کی گئی پابندیاں، ان کی انتظامیہ کی قوت اور عزم کا ثبوت ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن سے زیادہ روس سے سختی سے کوئی نہیں نمٹا۔

چین

صدر ٹرمپ کی چین پالیسی اُن کے دورِ صدارت کے دوران بتدریج تشکیل پاتی چلی گئی ہے۔ اپنی صدارت کے اولین مہینوں میں انہوں نے صدر ژی جن پنگ کی میزبانی کی اور تاہم بعد میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات ایک تجارتی جنگ میں تبدیل ہو گئے، اور بالآخر پہلی سطح کے تجارتی معاہدے پر پہنچنے سے پہلے، دونوں جانب سے ایک دوسرے کی مصنوعات پر ٹیکس عائد کئے گئے۔ سن 2020 میں جیسے جیسے کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا، صدر ٹرمپ نے چین پر وائرس کے پھیلاؤ کا الزام عائد کیا۔ پھر ٹک ٹاک اور وی چیٹ جیسی چینی ایپس پر پابندی کی بات کی۔

نائب صدر مائیک پینس نے اکتوبر میں ہونے والے ایک مباحثہ میں کہا تھا کہ صدر ٹرمپ چین کے سامنے کھڑے ہوئے اور مضبوطی سے کھڑے رہیں گے۔

چھوٹی ویڈیوز کی چین کی ایپ ٹک ٹاک پر امریکہ اور چین کے درمیان اختلافات نمایاں ہیں۔

جو بائیڈن کہتے ہیں کہ امریکہ کو چین کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالیوں اور ہانگ کانگ کی صورت حال پر سخت موقف اختیار کرنا چاہئیے، اور اس کے ساتھ ساتھ چین پر تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے دباؤ برقرار رکھنا چاہئیے۔

بائیڈن کے ساتھ نائب صدارتی امیدوار کامالا ہیرس نے پینس کے ساتھ مباحثے کے دوران کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ ہار دی ہے۔ اس کی وجہ سے امریکی کسان دیوالیہ ہو چکے ہیں اور یہ سب کچھ ہمیں کساد بازاری کی طرف لے کر جا رہا ہے۔

ایران

جو بائیڈن اُس وقت نائب صدر تھے جب 2015 میں امریکہ نے دیگر پانچ عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کئے تھے، جس میں پابندیاں نرم کرنے کے عوض جوہری پروگرام کو محدود کرنے کی شرط تھی۔ بائیڈن دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

ایران کا کروز میزائل کا تجربہ

صدر ٹرمپ نے اس معاہدے کو بدترین سمجھوتہ قرار دیتے ہوئے امریکہ کو اس سےنکال لیا تھا اور ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دی تھیں اور ایران کی معیشت کر سخت نقصان سے دوچار کیا تھا۔ تاہم ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں پھر سے شروع کر دی تھیں۔

اسرائیل

دونوں امیدوار اسرائیل اور فلسطینیوں کے ددرمیان قیام امن کے لئے دو ریاستی حل کے حامی ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کھل کر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی حمایت کی ہے، اور امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا ہے۔

بائیڈن نے اُس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، تاہم وہ اسے واپس لینے کا منصوبہ نہیں رکھتے۔ ان کی تجویز ہے کہ سفارتخانہ مشرقی یروشلم میں کھولا جائے تا کہ فلسطینیوں سے بات چیت جاری رہے۔

حالیہ عرصے میں اسرائیل اور کئی خلیجی مسلم ریاستوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوئے ہیں۔

جو بائیڈن بحرحال، حالیہ ہفتوں میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کے بحرین اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا کریڈٹ دیتے ہیں۔ تاہم بائیڈن کہتے ہیں کہ ٹرمپ کو امریکی مفادات کو ترجیح دینے سے بڑھ کرمزید جامع خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے

افغانستان

ٹرمپ انتظامیہ ، طالبان کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچی ہے، جس کے تحت سن 2021 کے وسط تک امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔ تاہم بعد میں ایک ٹوئٹر پیغام میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ اس سال کےاختتام تک اپنی افواج کو واپس بلانا چاہیں گے۔

صدر ٹرمپ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی جلد واپسی کے خواہش مند ہیں۔

بائیڈن اس حوالے سے زیادہ محتاط پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو بھی قدم اٹھایا جائے، اس کے لئے زمینی حقائق کو مد نظر رکھا جائے۔

شمالی کوریا

شمالی کوریا کے سلسلے میں صدر ٹرمپ تین بار شمالی کوریا کے صدر کِم جونگ اُن سے ملاقات کر چکے ہیں تا کہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری خطرے سے پاک کیا جا سکے۔ یہ ملاقاتیں کوئی حتمی بات طے تو نہی کر سکیں، لیکن شمالی کوریا نے 2017 کے بعد کوئی بین البرِاعظمی میزائل کا تجربہ نہیں کیا۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ان کے صدر کم جونگ اُن کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور ان کی انتطامیہ نے ایک اور ملاقات کی خواہش کا اظہار کیاہے۔

شمالی کوریا کی بین البراعظمی میزائل کی نمائش

بائیڈن کہتے ہیں کہ وہ بغیر شرائط کے صدر کم جونگ اُن سے ملاقات نہیں کریں گے۔ بائیڈن انتظامیہ کی حکمت عملی یہ ہو گی کہ وہ پابندیوں کے ذریعے دباؤ برقرار رکھتے ہوئے کم جونگ ان کو مذاکرات کے لئے مجبور کریں گے۔

افریقہ

بائیڈن کی تجویز تھی کہ صدر ٹرمپ اُن افریقی ممالک پر سے سفری پابندیاں اٹھائیں جو انہوں نے منصب صدارت سنبھالتے ہی لگائی تھیں، اور جن سے مسلمان آبادی رکھنے والے نائیجیریا، سوڈان اور صومالیہ جیسے چند ممالک متاثر ہوئے تھے۔ ٹرمپ اپنے اقدمات کا دفااع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ قومی سلامتی کے لئے ضروری تھے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے 2019 میں گوئٹے مالا، ایل سیلواڈور اور ہنڈوراس کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کئے تھے کہ ان ملکوں سے آنے والے امریکہ میں پناہ کے خواہاں پہلے دیگر ملکوں میں پناہ کے لئےجائیں گے۔ اگر وہ یہ کئے بغیر آئے تو انہیں امریکہ کی میکسیکو کی سرحد سے واپس بھیج دیا جائے گا۔ ٹرمپ کے ایک مشیر کا کہنا ہے کہ دیگر ملکوں کے ساتھ ایسے ہی معاہدے صدر ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت میں کیے جائیں گے۔

غریب افریقی ملکوں سے لوگ روزگار کی تلاش میں بیرونی ملکوں کا سفر کرتے ہیں۔

بائیڈن تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ امیگریشن سے متعلق صدر ٹرمپ کی ظالمانہ پالیسیاں ہیں، جوکہ امریکہ کے پناہ دینے اور نقل مکانی سے متعلق قوانین سے متصادم ہیں۔ بائیڈن کہتے ہیں کہ وہ اس خطے کی کچھ امداد کو بحال کریں گے تاکہ مختلف ممالک کی حکومتوں پر دباؤ ڈالا جاسکے کہ وہ امریکہ آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کو کم کریں۔

پناہ گزین

ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ برس، امریکہ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی حد 15 ہزار پر روک دی تھی۔ اوباما کے آخری سال میں یہ تعداد 85 ہزار تھی۔ محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ حالیہ حد امریکیوں کی فلاح اور تحفظ کے لئے ضروری ہے،خاص کر کووڈ -19 وبا کی وجہ سے۔

بائیڈن کہتے ہیں کہ وہ اس میں زبردست اضافہ کریں گے اور یہ تعداد بڑھا کر ایک لاکھ 25 ہزار کر دیں گے۔

بین الاقوامی معاہدے

ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی مفادات کے پیش نظر متعدد بین الاقوامی معاہدوں سے امریکہ کو الگ کیا ہے، جس میں ماحولیات سے متعلق پیرس ایکارڈ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی فنڈنگ میں کمی، اور ٹرانس پیسیفک ٹریڈ ڈیل یعنی ٹی پی پی شامل ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کاربن گیسوں کا بڑے پیمانے پر اخراج سے کرہ ارض گرم ہو رہا ہے

پیرس ایکارڈ اور ٹی پی پی اس وقت طے پائے تھے جب بائیڈن نائب صدر تھے اور وہ ان کو بحال کرنے کے خواہاں ہیں اور وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی بھی فنڈنگ بحال کرنے کے حق میں ہیں۔